Popular Posts

Thursday, May 4, 2017

اللہ کو پانے کا راستہ صحبت اہل اللہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ
ترجمہ: اے ایمان والوں ﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور( عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔

تصوف کی حقیقت

آج کل لوگوں نے چند وظیفوں پر، چند تسبیحات پر اور چند خوابوں اور مراقبات پر اور نفلی عبادات پر تصوف کی بنیاد رکھی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ قرآنِ پاک کا اعلان سن لیجیے:

اِنۡ  اَوۡلِیَآؤُہٗۤ  اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ

ہمارے ولی صرف متقی بندے ہیں۔ تصوف کی حقیقت صرف تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی سے بچنا ہے۔ اگر اللہ والوں کے پاس رہنا ہے تو تقویٰ سیکھیے اور اگر یہ ارادہ نہیں ہے تو بلاوجہ وقت ضایع نہ کیجیے۔ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ یعنی معیت اہل اللہ سے مقصد کیا ہے؟ تقویٰ ہے۔ کیوں کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ میں تقویٰ کا حکم ہے اور وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ حصولِ تقویٰ کا طریقہ ہے۔

معیّت صادقین کے دوام واستمرار پر استدلال

اللہ تعالیٰ نے وَ کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ فرمایا ہے اور کُوْنُوْا امر ہے اور امر بنتا ہے مضارع سے اور مضارع میں تجدد استمراری کی صفت ہوتی ہے جس کا مطلب ہوا کہ استمراراً اور دواماًاہل اللہ کے ساتھ رہو، کوئی زمانہ اہل اللہ سے مستغنی نہ رہو۔ لہٰذا اگر کسی کے شیخ کا انتقال ہو جائے تو اس کو فوراً دوسرے شیخ سے تعلق قائم کرنا چاہیے جیسے ڈاکٹر کا انتقال ہو جائے تو طبعی غم ہونا ہی چاہیے لیکن اب اس کی قبر پر جا کر کوئی انجکشن لگوا سکتا ہے؟ فوراً دوسرا ڈاکٹر تلاش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب شیخ کا انتقال ہو جائے تو اپنی اصلاح کے لیے دوسرا شیخ تلاش کیجیے۔ جس طرح جسمانی علاج زندہ ڈاکٹر ہی کر سکتا ہےاسی طرح روحانی اصلاح زندہ شیخ ہی سے ہوتی ہے۔

دیکھیے:میرے مرشد شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے حکیم الامّت کے انتقال کے بعد مولانا عبدالرحمٰن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق قائم کیا۔ ان کے انتقال کے بعد خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق کیا، ان کے انتقال کے بعد شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری کو پیر بنایا،ان کے بعد شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے بعد مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو۔ کتنے مشایخ بدلے۔ یہ لوگ ہیں جو دین کو خوب سمجھتے ہیں اور یہ ان کا کمالِ اخلاص ہے کہ ہمیشہ اپنے کو اہل اللہ کا محتاج سمجھا حالاں کہ خود شیخِ وقت ہیں۔

مفسرین اور ہمارے اکابر کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کا ترجمہ کُوْنُوْا مَعَ الْمُتَّقِیْنَ کیوں کرتے ہیں؟ اس لیے کہ قرآنِ پاک کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت کرتی ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ

معلوم ہوا کہ صادقون اور متقون کلیانِ متساویان ہیں، ہر صادق متقی اور ہر متقی صادق ہے، دونوں میں نسبت تساوی ہے۔ پس اے اللہ! اولیائے صدیقین کا گروہ لا تعداد بے اندازہ اور ان گنت آپ نے پیدا فرمایا ہے ان کے نورِ صدق و تقویٰ میں ہم کو بھی غرق کر دیجیے اور ہم کو بھی اہلِ صدق و صفا بنا دیجیے یعنی جو صدق و صفا میں آپ کے ساتھ با وفا ہیں ان اولیاء کی صف میں ہم کو بھی شامل فرما دیجیے۔

اور اہل صدق اس کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان میں صادق الوعد اور صادق العہد ہو یہاں تک کہ جان دے دے مگر اللہ کو ناراض نہ کرے اور جو اللہ کی راہ میں جان دینے سے گریز کرتا ہے، گناہ کی لذّت کو چھوڑنے کا غم نہیں اُٹھا تا، اپنے کو مجاہدہ کے غم سے بچانے کے لیے گناہ کرتا ہے کہ جہاں تقاضا ہوا نفس کی بات مان لی تو یہ شخص صادق نہیں ہے، اللہ کے ساتھ با وفا نہیں ہے بلکہ عملاً منافق ہے یعنی منافقوں جیسے کام کرتا ہے اگرچہ مومن ہے لیکن اس کے ایمان کا چراغ انتہائی ضعیف اور ٹمٹماتا ہوا ہے گویا کہ صرف زبان پر ایمان ہے اگر قلب میں ایمانِ کامل ہوتا تو لاکھوں تقاضوں کے باوجود یہ گناہ نہ کرتا۔ جس کو ہر وقت یہ استحضار ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں وہ کیسے گناہ کر سکتا ہے، وہ گناہوں کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنا سکتا، اس کو چین نہیں آئے گا جب تک توبہ و گریہ و زاری سے اللہ کو راضی نہ کر لے۔

لوگ کہا کرتے ہیں کہ آج کل شیخ اور مرشد اچھے نہیں ملتے، اس لیے ہم کہاں اور کس کے پاس جائیں؟   مگر ان کی یہ بات صحیح نہیں، یہ اللہ تعالیٰ پر ایک طرح کا الزام ہے کیوں کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ یعنی اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور (عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ ایسے صادقین کو پیدا فرماتے رہیں گے، وگرنہ اللہ تعالیٰ کا بندے سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ جس کا وجود اس کے کارخانۂ قدرت میں نہ ہو ’’ تَکْلِیفْ مَا لَا یُطَاق ‘‘ ہے جس سے اس کی ذات بری ہے جس کی شہادت یہ آیتِ کریمہ دے رہی ہے:

لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا

اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ معلوم ہوا کہ ہر دور اور ہر عہد میں باصدق و با صفا مشایخ کا ہونا لازمی ہے تاکہ لوگوں کو ان کی صحبت و معیت کا شرف حاصل ہوتا رہے جس سے اللہ کی یاد آئے، دنیا کی محبت کم ہو اور آخرت کی فکر بڑھے۔ کوئی ان مشایخ اور بزرگوں کو نہ جانے اور نہ پہچانے تو یہ اس کی کورنگاہی ہے اور طبیعت کی سہل انگاری کا کرشمہ ہے، اس میں قانونِ قدرت کا کوئی قصور نہیں۔

دیکھیے! آج کوئی مریض ہوتا ہے تو وہ کسی ڈاکٹر اور حکیم کے پاس علاج کے لیے ضرور جاتا ہے، ایسے مریض کے لیے کبھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا گیا کہ آج کل کے ڈاکٹر اور حکیم اچھے نہیں ہیں۔ اس لیے مجھے اپنی حالت میں رہنے دو، میں علاج نہیں کراتا، ہاں حکیم اجمل خاں اپنی قبر سے باہر آئیں گے تو ان سے میں علاج کراؤں گا۔ تو جب لوگ اپنے امراضِ جسمانی میں اسی زمانے کے حکمائے جسمانی کی طرف رجوع ہوتے ہیں اور شفا پاتے ہیں تو کیا اپنے امراضِ روحانی میں اس دور کے حکمائے روحانی سے ربط و تعلق پیدا کر کے ان امراض سے نجات نہیں پائیں گے؟ یقیناً پائیں گے اگر لوگوں کے اندر اس کی فکر ہو اور مرض کا احساس ہو اور یہ خیال ہو کہ روح کی بیماری جسم کی بیماری سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوستی کی پیشکش

اس آیت کا عاشقانہ ترجمہ میں یہ کرتا ہوں کہ اے ایمان والو! میرے دوست بن جاؤ۔ میں تمہاری غلامی کے سر پر اپنی دوستی کا تاج رکھنا چاہتا ہوں۔ اس لیے تقویٰ فرض کرتا ہوں اور ولی اللہ بننا، میرا دوست بننا یہ تمہارا اختیاری مضمون نہیں ہے، لازمی مضمون ہے۔ بتاؤ تقویٰ فرض کرناکیا اللہ تعالیٰ کا کرم نہیں ہے اور تقویٰ ہی اللہ کی دوستی کی بنیاد ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنۡ  اَوۡلِیَآؤُہٗۤ  اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ اللہ کے اولیاء صرف متقی بندے ہیں۔ پس آیت اِتَّقُوْا اللہَ میں تقویٰ لازم کرکے گویا اللہ تعالیٰ ہم سب کو غلامی کے دائرہ سے اُٹھا کر اپنی دوستی کے دائرہ میں داخل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ولایت کا تاج ہمارے سر پر رکھنا چاہتے ہیں اسی لیے تقویٰ فرض کر کے گویا ہر مومن کو اپنا دوست بننا فرض کر دیا کیوں کہ اللہ کی دوستی کا مادّۂ ترکیبیہ یعنی(material)صرف دو ہی جزء سے بنتا ہے۔ ایک ایمان دوسرا تقویٰ، جس کا ایک جزء یعنی ایمان تو تمہارے پاس موجود ہی ہے دوسرا جزء تقویٰ اور حاصل کر لو تو ولی ہو جاؤ گے لیکن اس جزء سے تم پیچھے ہٹتے ہو، بھاگتے ہو جبکہ تمہاری طبعی شرافت کا بھی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی نہ کرو کیوں کہ نافرمانی دوستی اور وفاداری کے خلاف ہے۔ مزید احسان اور کرم بالائے کرم فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی طرف اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھایا، بندوں نے درخواست نہیں کی تھی کہ اے خدا !ہم سب کو اپنا ولی بنا لے کیوں کہ منی اور حیض کے ناپاک میٹریل(material)سے پیدا ہوکر بندے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ اللہ کے دوست ہوجائیں مگر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہماری مایوسیوں اور نا امیدیوں کے بادلوں سے اُمید کا چاند طلوع فرمایا اور یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ نازل فرما کر ہمیں اپنا دوست بنانے کی پیش کش فرما دی کہ جس چیز کو تم سوچ بھی نہیں سکتے تھے اس کی ہم پہل کرتے ہیں اور اتنے بڑے اور عظیم الشان مالک ہو کر ہم تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتے ہیں۔ یہ پہل ہم نے کی ہے تم نے یہ پہل نہیں کی کیوں کہ تم پہلوان نہیں ہو، کمزور ہو، اپنی قوتِ ارادیہ کی شکست و ریخت سے تم ہمیشہ غم زدہ اور پریشان رہتے ہو، ارادے کرتے ہولیکن شیطان اور نفس کے غلبہ سے وہ پھر ٹوٹ جاتے ہیں تو ایسے کمزور و ضیعف بندے اللہ کا ولی بننے کا تصور کیسے کرسکتے تھے۔

اللہ تعالیٰ کی دوستی اور محبوبیت کا ایک اور راستہ

اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا پیارا راستہ بتا دیا کہ ہم تمہارے اس ضعف اور کمزوری کے باوجود تمہیں اپنا دوست بنا رہے ہیں تاکہ تمہارے ارادے توبہ کے ٹوٹنے نہ پائیں اور اگر ٹوٹ جائیں اور ہماری دوستی میں تم کمزور پڑ جاؤ تو پھر توبہ کر لو، پھر اشکبار ہوجاؤ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ہم توبہ کرنے والوں کو اپنے دائرۂ محبوبیت سے خروج نہیں ہونے دیتے اور توبہ کی برکت سے صاحبِ خطا صاحبِ عطا ہوجاتا ہے اور صاحبِ ذنب لا ذنب ہوجاتا ہے۔

اَلتَّآئِبُ مِنَ الذَّ نْۢبِ کَمَنْ  لَّاذَنْۢبَ لَہٗ

توبہ کی برکت سے بندہ ایسا ہو جاتا ہے گویا اس سے گناہ ہو ا ہی نہیں اور وہ اللہ کا پیارا اور محبوب ہو جاتا ہے۔ دنیا کے لوگ معافی تو دیتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ بھئی معاف کر دیا لیکن سامنے مت آیا کرو، تم کو دیکھ کر تمہاری اذیتیں یاد آجاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے کسی گناہ گار سے نہیں فرمایا کہ میرے سامنے مت آیا کرو، تمہارے نماز پڑھنے سے اور میرے سامنے تمہارے اشکبار ہونے سے اور آہ و فغاں کرنے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، تمہاری سابقہ کافرانہ اور فاسقانہ حرکتوں اور بدمعاشیوں سے مجھے اذیت ہوتی ہے بلکہ فرمایا کہ تم اگر توبہ کر لو تو ہم تم کو صرف معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ اپنا پیارا بنا لیں گے۔ اَلتَّائِبُ حَبِیْبُ اللہِ توبہ کرنے والا اللہ کا پیارا بن جاتا ہے۔

وصول الی اللہ کی شرط

اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوست بنانے کا جو حکم دیا ہے اس کو اختیاری نہیں رکھا بلکہ فرض کر دیا تاکہ تم خالی میرے مومن غلام ہی نہ رہو، مومن دوست بن جاؤ، تمہاری غلامی کے سر پر ہم تاجِ ولایت رکھنا چاہتے ہیں مگر بغیر اپنے کو پاک کیے ہوئے تم اللہ پاک کو نہیں پاؤ گے۔ اللہ پاک ہے ، ناپاک کو نہیں ملتا، جس کا تزکیہ ہو گیا اسی دن وہ ولی اللہ اور صاحبِ نسبت ہوگیا ۔ تزکیہ اور نسبت مع اللہ میں ایک ذرّہ کا فرق نہیں۔ اسی کو مولانا رومی فرماتے ہیں ؎

چوں  شدی  زیبا  بداں  زیبا  رسی

جب تم بد نظری، عشق مجازی، حسن پرستی، تکبر، غصہ، حسد، کینہ وغیر ہ تمام باہی اور جاہی رذائل سے پاک ہوکر زیبا ہوجاؤگے تو وہ حقیقی زیبا یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا پیار کر لے گا کیوں کہ زیبا کسی نازیبا کو پیار نہیں کرتا، زیبا زیبا ہی کو پیار کرتا ہے جس دن مزکیٰ ہو گئے، تمہارے اخلاقِ رذیلہ اخلاقِ حمیدہ سے بدل گئے اسی دن نسبت عطا ہو جائے گی۔ پس گناہ سے اپنی روح اور قلب کو پاک کر لو تو اللہ پاک اپنی تجلیاتِ خاصہ سے تمہارے دل میں آ جائے گا۔

لہٰذا ا للہ تعالیٰ نے ہمیں قلب کی طہارت اور قالب کی حفاظت کے لیے جہاں تقویٰ کا یعنی اپنی دوستی کا حکم دیا وہیں اس کا راستہ بھی بتا دیا اور یہ کمالِ رحمت ہے کہ حکم دے کر اس پر عمل کا طریقہ بھی بتا دیا تاکہ آسانی سے تم اس حکم کے نتیجہ کو پا لو اور متقی یعنی میرے دوست ہو جاؤ اور اس میں یہ راز بھی پوشیدہ ہے کہ تم لوگ تقویٰ اختیار نہیں کر سکتے جب تک میرے بتائے ہوئے راستے پر عمل نہیں کرو گے کیوں کہ تمہارے پاس جو نفسِ امارہ ہے اس کو اولیاء اللہ کا نفس بنانے کے لیے ایک ٹیکنالوجی(technology)اختیار کرنا پڑے گی۔

چودہ سو برس قدیم آسمانی ٹیکنالوجی

اب اختر  کی زبان سے سائنس سنو۔ لوگ کہتے ہیں کہ مولوی لوگ سائنس نہیں جانتے، ابھی بتاؤں گا کہ مولوی جو سائنس جانتا ہے اس کی خبر سائنس دانوں کو بھی نہیں ہے۔ دیسی آم کو لنگڑا آم بنانے کے لیے پیوند کاری سائنس نے اب ایجاد کی ہے لیکن ہمارے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں چودہ سو برس پہلے کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کی ٹیکنالوجی نازل کی کہ اگر تم اپنے دیسی دل کی اللہ والوں کے دل سے پیوندکاری کر لو، اپنے دیسی دل کو اللہ والوں کے دل سے باندھ لو تو تمہارا دیسی دل اللہ والا ہو جائے گا، تمہارا نفسِ امارہ،اولیاء اللہ کا نفسِ مطمئنہ ہو جائے گا، بس شرط یہ ہے کہ دیسی اور غافل دل کو کسی اللہ والے صاحب نسبت دل سے ملا دو ؎

قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کر دے

یہ آگ  لگتی  نہیں ہے  لگائی جاتی  ہے

اورکُوۡنُوۡامَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کی ٹیکنالوجی حیوانات و نباتات کی ٹیکنالوجی نہیں ہے اشرف المخلوقات کی ٹیکنالوجی ہے۔ ان سائنس دانوں کی ٹیکنالوجی تو دیسی آم کو لنگڑا آم بناتی ہے، نبات ادنیٰ کو نبات اعلیٰ بناتی ہے لیکن چودہ سو برس پہلے کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کی جو ٹیکنالوجی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی یہ انسانِ ادنیٰ کو انسانِ اعلیٰ بناتی ہے ، یہ غافل اور نا فرمان انسانوں کو اللہ والا بنا کر صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات بناتی ہے۔ ان سائنس دانوں کی ٹیکنالوجی حیوانات اور نباتات کے لیے ہے لیکن انبیاء کیوں کہ اشرف الناس ہیں ان کی ٹیکنالوجی اشرف المخلوقات کے لیے ہے۔

کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کی پیوند کاری کا طریقہ

لیکن اس کا کیا طریقہ ہے؟ اگر کوئی شخص خالی دعا کرتا رہے کہ یا اللہ! مجھے متقی بنا دے اور متقی بننے کی تدبیر نہ اختیار کرے تو خالی دعاؤں سے متقی نہیں بنو گے۔ اگر دیسی آم دس ہزار سال تک دعا کرتا رہے کہ اے خدا! مجھے لنگڑا آم بنا دے لیکن جب تک لنگڑے آم کے ساتھ پیوندکاری کی ٹیکنالوجی اس کو نہیں ملے گی دیسی ہی رہے گا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے چودہ سو برس پہلے کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کی یہ سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذریعہ اُمت کو عطا فرمائی کہ تمہارے گناہ گار قالب اور گناہوں کا خوگر قلب کیسے متقی بنے گا؟ کسی متقی سے متصل ہوجاؤ اور اس کے ساتھ رہ پڑو اور کتنارہو؟ تفسیر روح المعانی میں اس کی تفسیر ہے خَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ اتنا رہو کہ تم بھی اس اللہ والے جیسے بن جاؤ یعنی جیسا وہ اللہ والا ہے تم بھی ویسے ہی بن جاؤ، اس کا تقویٰ، اس کی خشیت اس کی محبت تمہارے اندر منتقل ہوجائے۔ اگر تم ویسے نہیں بن پا رہے تو پھر کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کی ٹیکنالوجی پر تمہارا عمل کمزور ہے، تمہاری پیوندکاری صحیح نہیں اور تمہاری خیانت اس میں پوشیدہ ہے تم نے اچھے دل سے صاف دل سے او رپکے ارادے اور اخلاص کے ساتھ اللہ کو اپنا مراد نہیں بنایا اور اس اللہ والے سے تمہارا تعلق ڈھیلا ڈھالا ہے کہ اپنی رائے کو تم نے فنا نہیں کیا، اس کی تجویزات اور مشوروں کی کامل اتباع  نہیں کی، یہی دلیل ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ تمہاری پیوند کاری صحیح نہیں ہے۔ ہمیں اللہ والوں کے ساتھ اس ارادے سے رہنا ہے کہ اللہ ہماری مراد ہو جائے اور وہ مراد مل بھی جائے۔ ایک ہے مراد ہونا، دل میں ارادہ ہونا کہ میری یہ مراد ہے اور ایک مراد مل جانا ہے، مراد کا پاجانا ہے دونوں میں فرق ہے۔ اللہ تو ہر مومن کا مراد ہے مگر دل میں مراد پا جاؤ، اللہ تعالیٰ مل جائے، مولیٰ کا قرب خاص دل محسوس کرنے لگے یہ بغیر اس ٹیکنالوجی کے اور ا س پیوند کاری کے یعنی صاف قلب سے اخلاص کے ساتھ کسی اللہ والے کے ساتھ رہے بغیر ممکن نہیں۔ اگر اللہ والے سے صحیح تعلق نصیب ہو جائے تو ایک دن ضرور بالضر ور اللہ والے بن جاؤ گے۔ یہ قرآن پاک کا اعلان ہے، یہ تصوف بلا دلیل نہیں ہے۔ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہو تو صادقین کے ساتھ، ہمارے سچے بندوں کے ساتھ رہو اور صادقین سے مراد متقین ہیں اور متقین سے مراد اللہ کے اولیاء اور پیارے ہیں اِنۡ  اَوۡلِیَآؤُہٗۤ  اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ لہٰذا پیاروں کے ساتھ رہو گے تو پیارے بن جاؤ گے اور صادقین سے مراد متقین ہیں اس کی دلیل ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕوَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ

معلوم ہوا کہ جو صادق ہے وہ متقی ہے اور جو متقی ہے وہ صادق ہے اور جو متقی ہے وہ اللہ کا دوست ہے لہٰذا اللہ کے دوستوں کے ساتھ پیوندکاری کی ٹیکنالوجی حاصل کرو۔ دیسی آم کے لنگڑا آم بننے کی بھی ایک حد اور (limit) ہوتی ہے کہ اتنے دن تک لنگڑے آم کے ساتھ رہے کہ دیسی آم کی بو اور خاصیت ختم ہوجائے اور لنگڑے آم کی خوشبو، لذت اور خاصیت آ جائے اسی طرح متقین صادقین یعنی اللہ کے دوستوں کے ساتھ نہایت قوی تعلق سے، اخلاص نیت سے اور اللہ کو دل میں مراد بنا کر اتنے زمانے تک رہو کہ ان اللہ والوں کی عادت و خصلت ، ان کا تقویٰ ، ان کی خشیت، ان کی محبت اور ان کی وفاداری، ان کی آہ وزاری، ان کی اشکباری اور ان کی یاری تمہارے قلب میں منتقل ہو جائے۔

اولیاء اللہ کی صفت ولی سازی

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح سورج میں گرمی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور چاند کو ٹھنڈک اللہ نے بخشی ہے اسی طرح اللہ والوں کے اندر اللہ نے ولی سازی کی خاصیت عطا فرمائی ہے یعنی ان کی برکت سے دوسر ے لوگ بھی اللہ کے ولی بنتے ہیں۔ یہ خاصیت ان کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ یہ ان کی ذاتی صفت نہیں ہے، جب خود ان کا ولی بننا اللہ کی عطا ہے تو ولی سازی کیسے ان کی ذاتی خاصیت ہو سکتی ہے۔ جس طرح مشہور ہے کہ ؎

آہن کہ بہ پارس آشنا شد

فی الفور بصورت  طلا  شد

جو لوہا پارس پتھر کے ساتھ مل جائے، متصل ہو جائے،touch ہوجائے، چھو جائے تو وہ لوہا فوراً سونا بن جاتا ہے تو پارس پتھر میں لوہے کو سونا بنانے کی جو خاصیت ہے وہ پارس پتھر کی ذاتی نہیں ہے اس کو دی گئی ہے اسی طرح اللہ والوں کے اندر ولی سازی یعنی ولی اللہ بنانے کی خاصیت اُن کی ذاتی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی ہے۔

کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کی ٹیکنالوجی کا طریقِ حصول

نباتِ ادنیٰ کو نباتِ اعلیٰ بنانے کی ٹیکنالوجی یعنی دیسی آم کو لنگڑا آم بنانے کی سائنس دانوں کی ایجاد تو اس صدی کی ہے لیکن انسان ادنیٰ کو انسان اعلیٰ، فاسق اور فاجر کو ولی اللہ اور غافل اور نا فرمان کو حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات بنانے کی ٹیکنالوجی کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ چودہ سو برس پہلے سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر نازل ہوئی اور یہ سائنس دان چوں کہ زمینی ہیں اس لیے ان کی ٹیکنالوجی حیوانات و نباتات تک محدود ہے اور انبیاء علیہم السلام اشرف الناس ہوتے ہیں اس لیے ان کی ٹیکنالوجی اشرف المخلوقات یعنی انسانوں کے لیے ہے۔ لہٰذا کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کی ٹیکنالوجی کا فیض کس طرح منتقل ہوتا ہے؟ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کا فیض طالبین اور مریدین میں، ان کے ہمنشینوں اور ساتھ رہنے والوں میں چار طریقہ سے منتقل ہوتا ہے۔ یعنی اللہ والوں کے اندر ولایت سازی کی جو خاصیت ہے، ان کو جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور دوستی اور تقویٰ کی حیات حاصل ہے وہ چار طریقوں سے منتقل ہوتی ہے:

نفس و شیطان کو مغلوب کرنے کے داؤ پیچ

اللہ والوں کے پاس بیٹھنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی دین کی ایسی بات سنا دیں گے اور ایسا داؤ پیچ سکھا دیں گے کہ نفس کو پٹکنے میں آسانی ہوجائے گی۔ جیسا کہ دنیا کے اکھاڑے میں ہوتا ہے کہ داؤ پیچ جاننے والا دبلا پتلا چالیس کلو کا پہلوان تین من کے پہلوان کو گرا دیتا ہے۔ تو اللہ والے اپنے ملفوظات سے ہمیں نفس و شیطان کو پٹکنے کے داؤ پیچ سکھاتے ہیں جس سے نفس و شیطان غالب نہیں آتے۔

۱) اہل اللہ سے مستفید ہونے کی شرطِ اوّلیں

لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی باتوں پر عمل کرے اور ان کی رائے کے سامنے اپنی رائے کو فنا کر دے تب یہ مقام نصیب ہو گا کہ جیسے وہ نفس و شیطان کو پٹکتے ہیں آپ بھی پٹکنے لگیں گے اور اس کی مثال وہی ہے کہ جیسے لنگڑے آم میں جو خاصیت ، لذت اور ذائقہ ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دیسی آم کا صرف اتنا کام ہے کہ لنگڑے آم کے سامنے اپنا خاص ہونا بھول جائے کہ میں بھی کوئی خاص چیز ہوں، اپنے وی آئی پی (VIP) ہونے کا احساس ختم ہو جائے، اپنے کو مٹا کر لنگڑے آم سے مل جائے۔ اسی طرح اللہ والوں کے سامنے اپنی بڑائی، اپنا علم و قابلیت سب ختم کر دو، اپنی ضَرَبَ یَضْرِبُ بھی بھول جاؤ ورنہ ساری زندگی ضارب و مضروب رہوگے۔ کہیں ماروگے کہیں مارے جاؤ گے اور کہیں مفعول مالم یسم فاعلہ   ہو جاؤ گے، پتا بھی نہیں چلے گا کہ کون مار کر چلا گیا۔ کبھی ایسی پٹائی بھی ہوتی ہے کہ پیٹنے والا کوئی نشہ پلا کر بے ہوش کر دیتا ہے اور خوب پٹائی کرتا ہے ۔ صبح کو جب ہوش آتا ہے تو چوٹ کا درد تو محسوس کرتا ہے مگر پیٹنے والے کا پتا نہیں چلتا اس کا نام عربی زبان میں مفعول مالم یسم فاعلہ ہے یعنی وہ مفعول جس کے فاعل کا پتا نہ چلے جیسے ضُرِبَ زَیْدٌ زید مارا گیا اور مارنے والے کا پتا نہیں۔ ایسے ہی شیطان کی مار ہے کہ شیطان نظر نہیں آتا لیکن بہکاتا ہے اور گناہ کا وسوسہ ڈالتا ہے لہٰذا جو لوگ گناہ کر رہے ہیں وہ سب کے سب شیطان کے مفعول مالم یسم فاعلہ  ہیں کہ ان کی پٹائی ہو رہی ہے اور انہیں خبر بھی نہیں کہ ان کی پٹائی کرنے والا شیطان ہے کیوں کہ وہ سامنے نہیں آتا دل میں گناہ کا تقاضا پیدا کرتا ہے۔

وسوسۂ شیطانی اور وسوسئہ نفسانی کا فرق

اس طرح نفس بھی بہکاتا ہے اور وسوسہ ڈالتا ہے لیکن شیطان اور نفس کے وسوسہ میں کیا فرق ہے؟ یہ مجدد زمانہ حکیم الامت کی زبان سے سنیے کہ اگر ایک دفعہ گناہ کا وسوسہ آیا اور پھر ختم تو سمجھ لو کہ یہ شیطان تھا بہکا کر چلا گیا لیکن جب گناہ کا تقاضا بار بار ہو تو سمجھ لو کہ یہ اندر کا دشمن نفس ہے جو پہلو میں بیٹھا ہوا بار بار تقاضا کر رہا ہے کہ یہ گناہ کر لو، یہ گناہ کر لو اور گھر کا دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

شیطان کا نہایت پیارا خلیفہ

شیطان تو بہت مصروف یعنی ’’بزی‘‘busy شخصیت ہے، اس کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ ایک ہی آدمی کے پیچھے لگ جائے اس لیے ایک دفعہ بہکا کر خود تو چلا جاتا ہے لیکن اپنا خلیفہ یعنی نفسِ امارہ چھوڑ جاتا ہے جو اس کا بہت ہی پیارا اور فرماں بردار خلیفہ ہے جو گناہ کا بار بار تقاضا کرتا رہتا ہے۔

اللہ والوں کا فیض منتقل ہونے کا ایک راستہ معلوم ہو گیا کہ ان کے ارشادات میں ہدایت ہوتی ہے، نفس و شیطان و معاشرہ کے شر سے بچنے کے داؤ پیچ معلوم ہوتے ہیں۔

۲) اہل اللہ کا نورِ باطن منتقل ہونے کے دو راستے

ان کی صحبت سے ان کے قلب کا نور ہمارے قلب میں دو طرح سے داخل ہوتا ہے ایک تو یہ کہ قلب سے قلب میں فاصلے نہیں ہیں۔ اجسام میں تو فاصلے ہوتے ہیں لیکن دلوں میں فاصلے نہیں ہیں جیسے ایک بلب یہاں جل رہا ہے اور دوسرا وہاں جل رہا ہے، تیسرا اور فاصلے پر جل رہا ہے تو بلب کے اجسام میں تو فاصلے ہیں لیکن روشنی میں فاصلے نہیں ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں بلب کی روشنی یہاں تک ہے اور فلاں کی وہاں تک ہے، نور کی کوئی حدِّ فاصل نہیں ہوتی، نور مخلوط ہوتا ہے۔ پس جب ہم اللہ والے کے پاس بیٹھیں گے تو اس مجلس میں اس اللہ والے کا نور اور طالبین کا نور سب کی روشنیاں آپس میں مل جائیں گی اور نور میں اضافہ ہو جائے گا اور قوی النور شیخ کے نور سے مل کر ضعیف النور طالبین کا نور بھی قوی ہو جائے گا اور نور منتقل ہونے کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اللہ والے جب اپنے ارشادات سے اللہ کا راستہ بتاتے ہیں توکیا ہوتا ہے؟ اس کو مولانا رومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ؎

شیخِ  نورانی زرہ آگہہ کند

نور  را  بالفظہا  ہمرہ  کند

اللہ والے، صاحبِ نور اللہ کا راستہ بھی بتاتے ہیں اور اپنے نورِ باطن کو اپنے لفظوں کے کیپسول میں رکھ کر طالبین کے کانوں کے قیف سے ان کے دلوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ یہ نورِ متعدی نورِ قلب کے متعدی ہونے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اپنے قالب کو ان کی مجلس میں لے جاؤ، ان کے پاس بیٹھو اور ان کی باتیں سنو اور عورتوں کے لیے اہل اللہ کی صحبت ان کا وعظ سننا ہے۔ وہ کان کے ذریعہ سے صاحبِ نسبت اور ولی اللہ ہو جائیں گی۔ کانوں سے سنتی رہیں یا ان کے کیسٹ سنتی رہیں اور کیسٹ دستیاب نہ ہوں تو اللہ والوں کی کتابیں پڑھیں لیکن وعظ سننے کا فائدہ زیادہ ہے کتاب سے کیوں کہ وعظ میں ان کا دردِ دل براہ راست شامل ہوتا ہے لہٰذا جہاں وعظ ہو رہا ہو پہنچ جاؤ بشرطیکہ پردہ کا انتظام ہو۔ جس پیر کے یہاں دیکھو کہ عورتیں اور مرد مخلوط بیٹھے ہیں تو سمجھ لو یہ پیر نہیں ہے پَیر ہے، وہاں سے اپنے پَیر جلدی سے اٹھا لو اور ادھر کا رخ بھی نہ کرو۔ کیوں کہ یہ اللہ والا نہیں ہے شیطان ہے، شاہ صاحب نہیں ہے سیاہ صاحب ہے اور اس کی خانقاہ نہیں ہے خواہ مخواہ ہے۔

۳) اہل اللہ سے شدید تعلق و محبت اور اس کی مثال

وہ راتوں میں اپنے پاس کے بیٹھنے والوں کے لیے اور اپنے صحبت یافتہ لوگوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا! جو بھی خانقاہ میں آئے محروم نہ جائے۔ ان کی آہ کو اللہ تعالیٰ رد نہیں کرتا۔ دیکھیے: ایک بچہ کسی کے ابّا سے لڈو مانگ رہا ہے۔ ابّا اس کو لڈو نہیں دیتا کہ یہ میرا بیٹا تھوڑی ہے لیکن اتنے میں اس کا بچہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ ابو یہ میرا کلاس فیلو ہے میں اس کے ساتھ کھیلتا ہوں اور اسی کے ساتھ پڑھتا ہوں یہ میرا جگری دوست ہے، جب جگری دوست کہتا ہے تو ابا کا جگر ہل جاتا ہے کہ میرے بیٹے کا جگری دوست ہے اور فوراً اس کو بھی لڈو دے دیتا ہے، تو اللہ والوں سے جگری دوستی کرو، معمولی دوستی سے کام نہیں بنے گا، اتنی دوستی کرو کہ وہ آپ کو دوست کہہ سکیں اور اللہ سے بھی کہہ سکیں کہ یا اللہ یہ میرا دوست ہے تو اللہ جب ان کو اپنے قرب کا لڈو دے گا تو جس کو وہ اپنا دوست کہہ دیں گے اس کو بھی یہ لڈو مل جائے گا۔ بتاؤ اس سے زیادہ واضح مثال اور کیا ہو گی۔

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں کہ اِنَّ جَلِیْسَھُمْ یَنْدَرِجُ مَعَھُمْ فِیْ جَمِیْعِ مَا یَتَفَضَّلُ اللہُ بِہٖ عَلَیْھِمْ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے دوستوں کو اپنے اولیاء کے رجسٹر میں درج کرتے ہیں اور ان پر وہ تمام افضال و مہربانیاں فرماتے ہیں جو اپنے اولیاء پر فرماتے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟ اِکْرَامًا لَّھُمْ بوجہ اپنے دوستوں کے اکرام کے۔ جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ آپ کا کوئی پیارا دوست آتا ہے تو آپ اس کے ساتھیوں کی بھی وہی خاطر مدارات کرتے ہیں جو اپنے اس خاص دوست کی کرتے ہیں۔ لہٰذا اللہ والوں کے ساتھ رہ پڑو اور اتنا ساتھ رہو کہ دنیا بھی سمجھے کہ یہ فلاں کے ساتھی ہیں۔ چناں چہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جا رہے تھے کہ ایک تابعی نے پوچھا!یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا، ھٰذَا صَاحِبُ رَسُوْلِ اللہِ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔ صحابی کے اس واقعہ سے اختر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ اتنا رہو کہ دنیا کی زبان پر قیامت تک یہ جاری ہو جائے کہ یہ فلاں کے ساتھ تھے جو جتنا زیادہ ساتھ رہتا ہے اتنا ہی گہرا دوست ہوتا ہے اور اگر دوستی کمزور ہو، مثل نہ ہونے کے ہو تو وہ کیسے کہے گا کہ یہ میرا دوست ہے لیکن میں یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ یا اللہ جوخانقاہ میں آئے محروم نہ جائے مدرسہ ومسجد خانقاہ کے ایک ایک ذرّہ میں جذب کی کشش بھر دے کہ یہاں جس کا قدم آ جائے وہ بھی دردِ دل، دردِ نسبت اور دردِ محبت پاجائے،نورِ تقویٰ پا جائے اورولی اللہ بن جائے۔

۴) دردِ محبت میں اہل اللہ کے خود کفیل ہونے کی مثال

اللہ تعالیٰ نے جس طرح پارس پتھر میں سونا سازی یعنی لوہے کو سونا بنانے کی خاصیت رکھی ہے، آگ میں گرمی اور جلانے کی خاصیت رکھی ہے اور برف میں ٹھنڈا کرنے کی خاصیت رکھی ہے اور ان کی خاصیت بلا دلیل تسلیم کی جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ والوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاصیت رکھی ہے اولیاء سازی کی کہ ان کی صحبت میں رہنے والے ولی اللہ ہو جاتے ہیں ۔ اگر آپ آگ جلائیں اور کوئی پوچھے کہ آگ میں گرمی کیوں ہے، اسی طرح کوئی کہے کہ چاند سے گرمی نہیں ملتی لیکن سورج میں کیوں گرمی ہے تو آپ یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں یہ خاصیت رکھی ہے اور سورج کا ایندھن جس سے سورج چمکتا ہے اس کا خرچہ کتنا ہے؟ سائنس دانوں کی تحقیق ہے کہ سارے عالم میں جتنا ایندھن خرچ ہوتا ہے سورج میں آگ کا ایندھن ایک گھنٹہ میں اس سے زیادہ خرچ ہوتا ہے لیکن یہ ایندھن سورج کہاں سے پاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایندھن میں سورج کو خود کفیل بنایا ہے۔ اس کے اندر ہزاروں لاکھوں ہائیڈروجن بم ہر وقت پھٹتے رہتے ہیں جس سے خود بخود آگ پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اگر سورج اپنے ایندھن میں خود کفیل نہ ہوتا تو اتنا ایندھن کہاں سے پاتا؟ جبکہ ساری دنیا کا ایندھن اس کے ایک گھنٹہ کے ایندھن کے برابر ہے۔ ایسے ہی اللہ والے جو ہدایت کے سورج ہیں ان کے قلب، درد دل کے ایندھن میں خود کفیل بنائے جاتے ہیں، ان کا یہ ایندھن کہاں سے آتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ان کے قلب پر علوم غیبیہ وارد کرتا ہے، ان کے دلوں کے اندر اپنے درد محبت کا ایندھن دیتا ہے، ان کے اندر ہمہ وقت درد دل کے ایسے دھماکے ہوتے رہتے ہیں جن سے وہ خود بھی گرما گرم رہتے ہیں اور ان کی برکت سے ان کے پاس بیٹھنے والوں کو بھی ایمانی گرمیاں مل جاتی ہیں اور ایک دن ان کے ہم نشینوں کے قلب بھی ہدایت کے سورج بن کر اپنے درد دل کی آگ میں خود کفیل ہو جاتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

                                                                                                                                          (ماخوذ از: خزائن القرآن)

شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

No comments:

Post a Comment

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here