مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ
ترجمہ: اے انسان تجھ کو جو کوئی خوشحالی پیش آتی ہے وہ محض اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے۔
تم کو جتنی نیکیاں مل رہی ہیں خواہ حج ہو یا عمرہ ہو یا نماز ہو یا تلاوت ہو یہ سب اللہ کی عطا ہے اور تم نے جتنے گناہ اور بُرائیاں کی ہیں یہ تمہارے نفس کی بدمعاشی اور شرارت ہے کیوں کہ نفس اپنی ذات کے اعتبار سے امارہ بالسوء ہے اور الف لام السوء کا اسمِ جنس کا ہے یعنی وقتِ نزولِ قرآن سے لے کر گناہ کے جتنے انواع قیامت تک ایجاد ہوں گے سب اس السوء میں شامل ہیں کیوں کہ جنس وہ کلی ہے جو انواع مختلف الحقائق پر مشتمل ہوتی ہے اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ مگر جس کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا سایہ عطا فرمائیں گے وہ نفس کے شر سے محفوظ ہو جائے گا۔ یہ ہمارا اور آپ کا استثناء نہیں ہے، یہ مخلوق کا استثناء نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا استثناء ہے۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنے سایۂ رحمت میں قبول فرمائیں اس کو اس کا نفس بھی خراب نہیں کر سکتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے استثناء کے سامنے نفس کی کیا حیثیت اور کیا حقیقت ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ میں جو مَاہے یہ مصدریہ ظرفیہ زمانیہ ہے لہٰذا ترجمہ ہوا اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ یعنی جب تک تمہارے رب کی رحمت کا سایہ رہے گا تمہارا نفس بھی تم کو برباد نہیں کر سکتا۔
حقیقت میں سب کچھ اختیار آپ کا ہے، وجود آپ کا ہی ہے، ہمارا وجود فانی ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ اس کو وجود کہا جائے جیسے سورج ستاروں سے کہہ سکتا ہے کہ تمہارا وجود ہے مگر مثل عدم کے ہے۔ ہماری ہستیاں حق تعالیٰ کی ہستی کے فیضان سے ہیں، ہماری ذات خود سے قائم نہیں بلکہ ہم حق تعالیٰ کے کرم سے اور ان کے فیضانِ صفتِ ’’حی‘‘اور فیضانِ صفتِ ’’قیوم‘‘ سے قائم ہیں۔ جس دن صفتِ حی اور صفتِ قیوم کے ظہور کو اللہ تعالیٰ ہٹا دیں گے اس دن آسمان گر پڑے گا، سورج اور چاند گر پڑیں گے اور قیامت قائم ہو جائے گی۔ محدثین نے لکھا ہے کہ اللہ کے ان دو ناموں حی اور قیوم سے سارا عالم قائم ہے۔ تو مولانا کا اشارہ یہی ہے کہ ہمارا وجود کوئی حقیقت نہیں رکھتا، ہماری گویائی، بینائی، شنوائی سب آپ کی مدد سے ہے ورنہ حقیقتاً گویائی آپ کی گویائی ہے، شنوائی آپ کی شنوائی ہے، وجود آپ کا وجود ہے کہ ازل سے ابد تک ہے۔ آپ قدیم ہیں، غیر فانی ہیں، قادرِ مطلق ہیں، ہم حادث اور فانی ہیں، ضعیف ہیں لہٰذا ہمارا بولنا کوئی بولنا ہے، ہمارا سننا کوئی سننا ہے، ہمارا وجود کوئی وجود ہے کہ ابھی ہم بول رہے ہیں ، سن رہے ہیں اور ابھی روح نکل جائے تو خاموشی ہے، سماعت بند اور بینائی ختم۔ ہم بالکل لاشیء ہیں، آپ کے تابع ہیں اور انتہائی بے کس ہیں۔
یہاں ایک اِشکال ہوتا ہے کہ جب ہم بالکل بے کس ہیں تو جزا اور سزا کیوں ہے؟ جیسے ایک شخص ایسا ہی ایک مضمون پڑھ کر ایک باغ میں گھس گیا اور انگور کھانے لگا اور جب باغ کا مالک آیا تو اس نے پوچھا کہ میرے درخت کے انگور کیوں کھاتا ہے؟ اور یہ سیب کیوں کھا لیے؟ یہ سب میرے درخت کے ہیں تو اس نے کہا تم غلط کہتے ہو، زمین بھی خدا کی، آسمان بھی خدا کا، میں بھی خدا کا اور درخت بھی خدا کے، انگور بھی خدا کے اور سیب بھی خدا کا۔ خبردار جو مجھے کھانے سے منع کیا ۔تو باغ کے مالک نے کہا: اچھی بات ہے۔ ابھی بتاتا ہوں اور ایک رسہ لے آیا اور اس سے اس کو خوب باندھ دیا اور ایک ڈنڈے سے اس کی پٹائی شروع کی تو وہ چلّانے لگا کہ کیوں مارتا ہے؟ تو مالکِ باغ نے جواب دیا کہ میں بھی خد اکا، تو بھی خدا کا، رسہ بھی خدا کا، اور ڈنڈا بھی خدا کا خبردار جو چلایا تو اس وقت۔ اس نے کہا:اختیار است اختیاراست ، میں توبہ کرتا ہوں، میں مجبور نہیں ہوں، مجھے اختیار ہے اختیار ہے ۔ ماہمہ لاشیم سے مولانا فرقۂ جبریہ کی تائید نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنی بے کسی اور عاجزی ظاہر کر کے حق تعالیٰ کی رحمت سے درخواست کررہے ہیں۔ دونوں میں فرق ہے اور مندرجہ بالا واقعہ بھی مثنوی کا ہے جس میں فرقۂ جبریہ کا رد ہے۔
اے خدا! ہم مجبور نہیں ہیں۔ یہ جو ہم نے اپنے کو آپ کے حوالے کیا ہے کہ ہم لاشئی ہیں اور آپ ہی سب کچھ ہیں، یہ آپ کی عظمتِ شان کا اعتراف اور اپنی حقارت و عاجزی و بے کسی پیش کی ہے تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھنے کی رغبت اور سجدوں کی لذت میں ترقی عطا فرمائیں۔ یہ دراصل لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ کا ترجمہ ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں حدیث نقل کی کہ ایک بار حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ھَلْ تَدْرِیْ مَا تَفْسِیْرُھَا یعنی اے عبداللہ ابن مسعود! اس لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ کے معنیٰ سمجھتے ہو؟ عرض کیا اَللہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ کا ترجمہ سن لو۔ سبحان اللہ! نبی کے الفاظ ہیں اور نبی کے الفاظِ نبوت کی شرح الفاظِ نبوت سے ہو رہی ہے۔ فرمایا کہ لَاحَوْلَ کے معنیٰ ہیں لَا حَوْلَ عَنْ مَّعْصِیَۃِ اللہِ اِلَّا بِعِصْمَۃِ اللہِ یعنی ہم اللہ کی معصیت سے نہیں بچ سکتے جب تک کہ خود اللہ حفاظت نہ فرمائے، اللہ کی حفاظت سے ہم گناہ سے بچ سکتے ہیں وَلَا قُوَّۃَ اَیْ وَ لَا طَاقَۃَ عَلٰی طَاعَۃِ اللہِ اِلَّا بِعَوْنِ اللہِ ہم اللہ کی عبادت نہیں کر سکتے جب تک اللہ مدد نہ فرمائے۔
زور چھوڑ دو اور آہ و زاری اختیار کرو۔ اللہ کا رحم آئے گا آہ و زاری سے، یہ زور سے نہیں آئے گا کہ میں بڑا متقی ہوں، مقدس ہوں، میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا۔ اگر دعویٰ کرو گے تو رحمت سے محروم ہو جاؤ گے۔ لہٰذا زور چھوڑو اور زاری اختیار کرو تاکہ اللہ کا اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ مل جائے اور نفس کے شر سے خدا اپنی حفاظت میں قبول فرمائے۔
اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ میں جو رحم ہے جس کے صدقہ میں نفوسِ انسانیہ، حرکاتِ نفسانیہ اور آثارِ شیطانیہ سے محفوظ رہتے ہیں وہ رحم اگر لینا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس آیت کی گویا تفسیر فرمائی اور اس رحم کو مانگنے کا جو مضمون عطا فرمایا وہ گویا حق تعالیٰ ہی نے عطا فرمایا ہے کیوں کہ نبی اللہ تعالیٰ کا سفیر ہوتا ہے۔ اس کا ہر مضمون خدائے تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا
جو ہمارا نبی تم کو عطا فرمائے اس کو لے لو یعنی جو حکم دے اس کو سر آنکھوں پر رکھو اور جس بات سے روک دے اس سے رُک جاؤ گویا اس آیت میں مذکورہ رحمت کو مانگنے کے لیے طریقہ اور مضمون اللہ تعالیٰ نے بزبانِ نبوت عطا فرمایا کہ اگر تم اِلَّا کے بعد مَا رَحِمَ رَبِّیْ چاہتے ہو اور نفس کی بدمعاشیوں سے تحفظ چاہتے ہو تو یہ دعا مانگو:
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّہٗ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ
اے زندہ حقیقی اور اے سنبھالنے والے میں آپ کی رحمت سے فریاد کرتا ہوں کہ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ میری ہر حالت کو درست فرما دیجیے، میری زندگی کا کوئی شعبہ آپ کی نا فرمانی میں مبتلا نہ ہو، نہ کان گانا سنے، نہ آنکھ حسینوں کو دیکھے، نہ ناک خوشبوئے حرام سونگھے، نہ زبان غیبت کرے، نہ ہونٹ حرام بوسے لیں، غرض سر سے پیر تک ہر جز آپ کا فرماں بردار ہو اور کُلَّہٗ تاکید ہے یعنی میری کوئی بھی حالت ایسی نہ رہنے پائے جو آپ کو پسند نہ ہو، میری ہر ناپسندیدہ حالت کو اپنی پسند کے مطابق ڈھال لیجیے، میری ہر ادائے بندگی کو وفائے بندگی سے مشرف فرما دیجیے کہ سر سے پیر تک کہیں بھی بے وفائی کا داغ میرے اوپر نہ لگنے پائے اور میں سراپا آپ کا ہو جاؤں ؎
نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا
اُنہیں کا اُنہیں کا ہوا جارہا ہوں
وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ اور اے اللہ! جس نفس کو آپ نے امارہ بالسوء فرمایا ہے مجھے پلک جھپکنے بھر کو اس دشمن کے سپرد نہ فرمائیے کیوں کہ دنیا میں سب سے بڑا دشمن یہی نفس امارہ بالسوء ہے کیوں کہ کسی دشمن کو ہر لمحہ ہر وقت یہ استطاعت نہیں کہ پلک جھپکنے بھر میں ہمیشہ ہی وہ اپنے مقابل کو ہلاک کردے لیکن یہ نفس ایسا دشمن ہے کہ ہمیشہ اس میں یہ استطاعت ہے کہ پلک جھپکنے میں یہ انسان کو ہلاک کرسکتا ہے۔ اسی لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے طَرْفَۃَ عَیْنٍ اس کے حوالہ ہونے سے پناہ مانگی ہے کہ ایک پل میں یہ مومن کو کافر، ولی کو فاسق اور انسان کو جانور سے بھی زیادہ ذلیل بنا دیتا ہے۔
اور فرقہ جبریہ کا عقیدہ جبر کہ انسان مجبور محض ہے جو موجب ہے کاہلی و جمود اور خمود کا یعنی بے عملی اور اعمال میں ٹھنڈا اور سست پڑ جانے کا۔ اے خدا! اس قسم کے جراثیم سے ہماری حفاظت فرمائیں، ایسی گمراہی کو ہمارے اندر نہ آنے دیجیے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اعمال میں بالکل سست اور ٹھنڈے ہو جائیں اور بے عملی اور گمراہی کا شکا ر ہو کر خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ہو جائیں۔ یہ عقیدۂ جبر یہ اتنا گمراہ کن ہے کہ انسان کو اعمال سے بے زار کر دیتا ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہم تو مجبور محض ہیں، مسجد جب جائیں گے جب اللہ پاک بلائیں گے لیکن اس سے کہو کہ روزی کمانے کے لیے بازار کیوں جاتے ہو، گھر پر پڑے رہو جب اللہ میاں بلائیں تب جانا۔ اور کھانا کیوں ٹھونستے ہو، جب اللہ میاں کھلائیں کھا لینا۔ دین ہی کے کاموں میں مجبور ہو، ذرا دنیا کے کاموں میں بھی مجبور ہو جاؤ۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ چھوڑو نماز روزہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے لیکن اللہ تو رزاق بھی ہے پھر دوکان کیوں کھولتے ہو، سارا دن گھر میں پڑے رہو، رزق خود آجائے گا۔ وہاں تو بڑے چست ہو، یہ حیلہ بازیاں اور حیلہ سازیاں صرف دین ہی میں ہیں۔ دنیا کے کاموں میں کیوں حیلہ بازی نہیں کرتے ؎
اے کہ تو دنیا میں اتنا چُست ہے
دین میں لیکن تو اتنا سست ہے
(ماخوذ از: خزائن القرآن)
شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ
No comments:
Post a Comment