حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب حقی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندانی پس منظر پشتینی طور پر خدمت علم ودین واشاعت حدیث وسنت رہا ہے ، یہ خاندان بخارا کا خاندان تھا جو ہندوستان میں دہلی میں آباد ہوا اوراس کے بعض افراد کچھ اسباب کی بنا پر رامپور اور میرٹھ میں بھی رہے ،
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد مولوی محمود الحق حقّی صاحب ہردوئی آکر اقامت پذیر ہوئے ۔ یہیں محی السنّۃ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے ، بقول حضرت مولانا مجید اللہ ندوی رحمۃ اللہ علیہ ان میں بچپن ہی سے فطری آثارِ کمال ، صالحیت اور شائستگی کے جوہر نمایاں تھے ۔
حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی لکھتے ہیں ’’ حضرت والاکی ولادت باسعادت ۱۳۳۰ ھ مطابق ۲۰؍ دسمبر ۱۹۲۰ ء بمقام ہردوئی ایک دینی گھرانے میں ہوئی ، آپ کا نام ابرار الحق رکھا گیا ، آپ کے والد محترم کا نام نامی محمود الحق تھا جو حکیم الامت ، مجددالملّت ، حضرت اقدس تھانوی نور اللہ مرقدہ کے دست گرفتہ تھے ، حالانکہ پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے ، لیکن تھانہ بھون کی حاضری نے ایسے اثر دکھایا کہ بس وہیں کے ہوکر رہ کرگئے ، اور ماشاء اللہ آپ کے تدیّن وتقویٰ پر اعتماد کرتے ہوئے بارگاہ اشرفی سے آپ کو خرقۂ خلافت سے نوازا گیا ۔ اس طرح پدر وپسر دونوں ہی ایک شیخ سے اس شرف سے مشرف ہونے والے بن گئے ۔ (سوانح حضرت مولانا ابرارالحق حقی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نمبر : ۵۹ از محمود حسن حسنی ندوی )
آپ شروع سے خالص دینی تعلیم میں لگائے گئے ، صاحبِ فراست والد ماجد نے بدوِ شعور سے آپ کا اس کے لیے انتخاب کرلیا ، کچھ تو تعلیم آپ کے گھر کی رہی ، ماں کی گود میں بچہ کا پہلا مدرسہ ومکتب ہوتا ہے اور عموماً اسی پر مستقبل کا انحصار ہواکرتا ہے ، تعلیم کا اگلا مرحلہ حفظ قرآن کا تھا ، پھر ابتدائی عربی وفارسی کی تعلیم ، یہ مراحل ہردوئی میں ہی طے ہوگئے ، پھر آپ سہارن پور بھیج دےئے گئے ۔ ( بحوالہ سابق صفحہ نمبر ۶۰)
قناعت کی ایک مثال خود انہی کی زبانی :۔ انہوں نے فرمایا :
جب میں دورۂ حدیث پڑھ کر سہارن پور سے فارغ ہوا تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مشورے کے مطابق جامع العلوم کانپور میں ۲۵ روپئے ماہانہ تنخواہ پر تقرر ہوگیا اس زمانہ میں میرے ایک عزیز گونڈہ میں بیمار تھے ، حضرت والد صاحب کے ارشاد کے مطابق ان سے ملنے اور ان کی عیادت کے لیے گونڈہ جانا ہوا ، میرے جو عزیز بیمار تھے ان کے ایک عزیز جو ڈاکٹر تھے وہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے ، عمر میں مجھ سے بڑے تھے ، بے تکلف آرام کرسی پر لیٹے ہوئے تھے، مجھ سے بات چیت کرنے لگے ، سلسلۂ گفتگو میں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں اور کیا تنخواہ ملتی ہے ؟ میں نے کہا کہ کانپور کے ایک مدرسہ میں درس وتدریس کا کام کرتا ہوں اور ۲۵؍روپئے ماہانہ ملتے ہیں ۔ اس پر تعجب کرتے ہوئے کہا کہ اتنے میں کیا ہوتا ہوگا؟ یہ بہت ہی کم ہے ، میں نے کہا کہ بھائی اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہو کہ مجھے ۲۵؍روپئے مل جائیں تو میں گذر کرلوں گا ، پھر اس کو ۲۵؍ روپئے مل جائیں تو فرمائیے اس کو کس قدر راحت ومسرّت ہوگی ؟ اتنا سنتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور تعجب کرکے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہی جس سے مجھ کو بہت نفع ہو ، اور بہت زیادہ سکون حاصل ہوا ، میرا تو حال یہ ہے کہ ماہانہ تین سو روپئے کماتا ہوں مگر فکر لگی رہتی ہے کہ مہینہ میں پانچ سو روپئے ملیں ، اس لئے پریشان ہی پریشان رہتا ہوں ، سکو ن حاصل نہیں ہوتا ، اور آپ کو اتنی مقدار میں کم خواہش کی وجہ سے سکون حاصل ہے ۔ (بحوالہ سابق صفحہ نمبر: ۶۹)
مرشد تھانوی کی ہمرائی
حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تھانہ بھون حاضری تو برسوں پوری پابندی کے ساتھ ہوتی رہی ، ایک دو دن قیام اور ہفتوں مہینوں قیام کی بھی سعادت ملی اور سفر میں بھی ساتھ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی (بحوالۂ سابق صفحہ نمبر ۷۰)
مصنف حیات ابرار لکھتے ہیں : ۔ اصلاح وتربیت او ررجال کار کی تیاری میں حضرت حکیم الأمّت کو اللہ تعالیٰ نے جو امتیازی شادفن مرحمت فرمائی تھی وہ محتاج بیان نہیں ،حضرت کے آفتاب ضیا پاش سے باقاعدہ طور پر جذب کرنے والوں میں شاید سب سے کم عمر حضرت ہردوئی قدس سرہ ہی کی ذات تھی ۱۳۶۱ ھ میں جب آپ فتح پور مدرسہ میں مقیم تھے بعمر ۲۲سال حضرت اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خلعتِ خلافت سے سرفراز ہوئے ۔ (بحوالۂ سابق صفحہ نمبر : ۷۱)
شیخ کے اصولوں کا پاس ولحاظ
مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ؒ نے تعلیم وسلوک میں اپنے شیخ مرشد کے اصولوں کو ہمیشہ مد نظر رکھا ، یہ اصول تعلیم وتعلم کے دائرہ کے ہوں یا دعوت وتبلیغ سے متعلق ہوں ، میزبانی کے ہوں یا مہمانی کے ، تربیت واصلاح کے سلسلہ کے ہوں یاجس سلسلہ کے بھی ..........(بحوالۂ سابق صفحہ نمبر : ۷۲)
دیگر بزرگان دین سے روحانی تعلق
حضرت مولانا محمد قمرالزماں صاحب الہ آباد ی ان کے اصلاحی وتربیتی جذبہ وفکر کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ حضرت حکیم الأمّت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد مولانا عبدالرحمن کیمل پوری سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا، ان کی رحلت کے بعد حضرت خواجہ عزیزالحسن مجذوب سے پھر حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہم سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا ، ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب کی خدمت میں مسلسل آمدورفت کا سلسلہ رکھا ، ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا احمد صاحب پرتاب گڑھی کی خدمت میں آمدورفت کا سلسلہ قائم رکھا ‘‘ ۔ (بحوالۂ سابق صفحہ نمبر : ۷۳)
عجز کے پیکر تواضع کے خوگر
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ مولانا خواص وعوام میں مقبولیت اور ارشاد وتربیت کے کام میں مامور کئے جانے کے باوجود شروع سے اخیر تک اپنے کو خوشہ چیں اور طالب ہی سمجھتے رہے ۔
اشرف المدارس اور مجلس دعوۃ الحق
فتح پور کے زمانہ قیام میں اپنے شیخ ومرشد حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ کا ایما پاک اپنے وطن ہردوئی (اترپردیش ) میں تعلیم وتربیت کے کام کے لئے ایک مدرسہ ماہ شوال ۱۳۶۲ ھ میں شروع کیا جس کو اشرف المدارس کے نام سے معنون کیا ۔ اور دعوت واصلاح کے کام کے لئے صفر ۱۳۷۰ ھ میں اک مجلس کی داغ بیل ڈالی جسے ’’ دعوۃ الحق ‘‘ کا نام دیا ، یہ حضرت تھانوی کی ہی ’’ دعوۃ الحق تحریک ‘‘ کی تجدید تھی ، اسی کے ساتھ اصلاح باطن وتزکیہ کے کام کے لئے خانقاہ کا نظام قائم کیا اور اس میں وہی اصول وضوابط رکھے جو تھانہ بھون کے تھے ۔ مدرسہ میں مولانا نے بھیڑ اکٹھا کرنے کے بجائے تعداد کم رکھ کر اس پر محنت کرنے کا اصول اپنایا ۔ کمیت کے بجائے کیفیت پر ان کی زیادہ نظر رہی ۔
علوم میں سب سے افضل واشرف علم قرآن مجید کی صحیح طور پر قرأت اور سنت کے مطابق حروف کی ادائیگی اور اس کی صحیح اور اچھی یادداشت کی فکر پر نظر رہی اس میں ان کے مدرسہ نے نہ صرف ملک وبیرون ملک میں اچھی شہرت پیدا کرلی بلکہ ان کے نظام کے طرز پر برصغیر میں مدارس ومکاتب کا قیام عمل میں آنا شروع ہوگیا ۔ (بحوالۂ سابق / ۷۷)
ضیافت میں نظم وضبط
نظم وضبط حضرت مولانا قدس سرہ کا مزاج بن گیا تھا اور اخلاق حسنہ کا ہی ایک حصہ ہے جس سے دوسرے اذیت وتکلیف سے محفوظ رہتے ہیں اور مقصود تک آسانی سے رسائی ہوجاتی ہے ۔ اس لئے نظم وضبط کے خلاف کوئی بات پیش آتی تو ان کو ناگواری ہوتی ان کا اس پر زور اسی لئے ہوتا تھا کہ لوگ تکلیف سے بچیں ۔ (بحوالۂ سابق / ۷۹)
وعظ ونصیحت میں مولانا جذباتی طریقہ کے قائل کم تھے ، وہ اس کے قائل زیادہ تھے کہ تھوڑی تھوڑی بات بتائی جائے ، جس کو مخاطب محفوظ رکھ سکے ، اور اپنے معمولات زندگی میں داخل کرسکے ۔ اس سے مولانا کبیدہ خاطر نہیں ہوتے تھے کہ نصیحت کا فوری اثر سامنے نہیں آرہا ہے ، وہ سمجھتے تھے کہ تذکیر کا مطلب ہی یہ ہے کہ بات بار بار کہنی ہے اور بتدریج کہنی ہے ۔ (بحوالۂ سابق / ۸۲)
مولانا اصلاح عوام واصلاح خواص دونوں میں ان کی نفسیات کا خاص خیال رکھتے تھے ، نہ خود بوجھ بنتے نہ دوسرے پر اتنا بار ڈالتے کہ وہ اٹھا نہ سکے ، خود جن پروگراموں یا جلسوں میں تشریف لے جاتے وہاں بھی اس کا لحاظ رکھتے اور اگر وہ داعی ہوتے تو اکرامِ ضیف واکرام علم وعلماء میں ذراکمی نہ ہونے دیتے ۔ (بحوالۂ سابق / ۸۴)
نظم وضبط مولانا کا خاص امتیازی وصف تھا ، ہر معاملہ میں اس کا پورا لحاظ رکھتے تھے وہ جب دوسرے سے ملتے یا معاملہ کرتے تو اس کے جذبات کا بھی خیال کرتے مگر دین وسنت کے خلاف کوئی بات دیکھتے تو پھر وہ خاموش نہ رہتے بلکہ اس کی وضاحت کردیتے ۔
نظافت ونفاست
ہر چیز عمدگی اور سلیقہ سے ہو ، لباس ، چال ڈھال ، گفتگو، کھانے پینے ہر چیز میں وہ یہ دیکھتے تھے کہ اس بات کا اس میں کتنا خیال رکھا گیا ہے ، مدرسوں وغیرہ میں جاتے ، سیدھے مطبخ میں پہونچ جاتے ، غسل خانوں اور بیت الخلاء کو جاکر دیکھنے لگتے .......... مولانا اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتے کہ کارخانوں میں کام کرنے والے اور مطبخ کے ملازمین اپنے انہی کپڑوں میں نماز کے لئے مسجد آجائیں جو صاف ستھرے نہ ہوں ، میلے اور بدبودار ہوں ، انہیں نماز کے لئے صاف ستھرے کپڑے الگ رکھنے چاہئے ، مسجد میں حاضری کا یہ ادب بھی ہے اور ایذائے مسلم سے بچاؤ کا سامان بھی ہے ۔ ( بحوالۂ سابق / ۱۱۰)
مولانا کا باطن کے نکھارنے کے ساتھ ساتھ ظاہر کے بناؤ پر بڑا زور رہا کرتا تھا ، وہ اپنی نجی مجلسوں میں ، خانقاہ اور مدرسہ میں ، سفروں اور پروگراموں ، ملاقاتوں اور مراسلتوں میں اس پر خصوصیت سے زور دیتے ۔ ......... ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’ ظاہر اپنے باطن کو کمال پر پہونچاتا ہے ، مسلمانوں نے دین کے ظاہر کو جب سے ترک کیا ہے وہ ترقیوں سے محروم کردئیے گئے ہیں ‘‘۔ انہوں نے فرمایا ’’ آج ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں ، اور ہمیں خود اپنے کو بدلنے کا کچھ خیال نہیں ہے ‘‘ ......... اور فرمایا ’’ اپنے ظاہر کو بنانے کے لئے دوباتوں کا التزام کیجئے ، ایک تو جماعت سے نماز پڑھئے ، دوسرے یہ کہ اپنے چہروں کو داڑھی سے پرنور بنائیے ‘‘۔ (بحوالۂ سابق /۱۱۳)
No comments:
Post a Comment