Popular Posts

Tuesday, April 19, 2016

عبرت انگیز واقعہ

بخت نصر بادشاہ ابتداء میں نہایت نیک بخت اور صالح تھا حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نہایت اطاعت کرتا تھا، اتفاقاً اس نے ایک عورت سے نکاح کیاجس کے ہمراہ ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی پہلے شوہر سے تھی۔ جب وہ لڑکی سن بلوغت کو پہنچی تو بادشاہ اس کی بہار حسن دیکھ کر فریفتہ و دیوانہ ہو گیا اس کی ماں کو پیغام دیا وہ بہت خوش ہوئی۔ مگر دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ بادشاہ پیغمبروں کا مطیع فرمان ہے اور ایسا نکاح اللہ کے پیغمبروں کی شریعت کے خلاف ہے وہ کیوں اس کام کی اجازت دیں گے اس لئے بادشاہ سے کہا تم اس کا حق مہر ادا نہ کر سکو گے۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ حق مہر کتنا ہے ؟
جو کچھ کہو میں دوں گا۔
عورت نے کہا اس کا حق مہر تمہارے دونوں پیغمبروں کا سر ہے۔ اگر تم یہ حق مہر ادا کر دو تو لڑکی حاضر ہے ورنہ اس کا نام بھی مت لو۔
بادشاہ کہنے لگا یہ پیغمبر ہمارے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہمارے خیر خواہ ہیں اور ہمارے لئے دعا گو ہیں۔ انکو بے جرم قتل کرنا ظلم عظیم ہے۔
اس کے علاوہ جو مانگو جو حق مہر ہو مجھے منظور ہے۔
عورت نے کہا اس کے علاوہ اور کوئی حق مہر نہیں۔
بادشاہ نے ہوائے نفسانی سے مغلوب ہو کر فوج کو حکم دیا کہ دونوں بے گناہوں کا سر کاٹ لاؤ، عین حکم سپاہیوں نے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بیت المقدس میں قتل کیا تو حضرت زکریا علیہ السلام یہ منظر دیکھ کر جنگل کی طرف بھاگ نکلے، فوج پیچھے ہوئی اور شیطان نے رہنمائی کی جب سپاہیوں نے آ دبایا اور گھیر لیا تو حضرت زکریا علیہ السلام نے ایک درخت سے التجا کی مجھے اس وقت اپنے اندر پناہ دے تو درخت حکم خداوندی سے پھٹ گیا اور آپ علیہ السلام اس میں سما گئے اور پھر بند ہو گیا لیکن قدرے کپڑا باہر رہ گیا فوج متحیر ہوئی کہ کہاں غائب ہو گئے؟
شیطان نے نشان دیا کہ اس درخت کے اندر ہیں اور یہ کپڑا ان کے موجود ہونے کی علامت ہے۔
پھر شیطان نے آرا کی ترکیب بتلائی، درخت چیرا گیا جب آرا کی نوبت سر پر پہنچی تو حضرت زکریا علیہ السلام نے سسکی بھری،
حکم الہٰی نازل ہوا۔
مفہوم: اگر اُف کرو گے تو پیغمبری سے خارج کر دئیے جاؤ گے، تم نے غیر سے کیوں پناہ مانگی؟ اگر ہم سے التجا کرتے تو کیا ہم پناہ نہیں دے سکتے تھے؟ اب اس کا مزہ چکھو اور چپ سر پر آرا چلنے دو۔
غرضیکہ سر سے پاؤں تک جسم چیرا گیا اور حضرت زکریا علیہ السلام نے دم نا مارا۔ جب دونوں پیغمبر اس بے دردی سے قتل ہوئے تو غضب الہٰی نازل ہوا، دن تاریک ہو گیا اور ایک بادشاہ فوجِ خونخوار لے کر چڑھا اور اس شہر کے باشندوں کو گرفتار کر لیا، حضرت یحییٰ علیہ السلام کا خون بند نا ہوتا تھا جب قبر میں رکھتے تو قبر خون سے لبریز ہو جاتی، بادشاہ کے لشکر نے قسم کھائی کہ جب تک حضرت یحییٰ علیہ السلام کا خون بند نہیں ہو گا ہم باز نہ رہیں گے۔
ہزار ہا آدمی تہ تیغ کر دئیے لیکن خون بند نا ہوا، اس وقت ایک شخص حضرت یحییٰ علیہ السلام کی میت پر آیا اور کہا کہ آپ پیغمبر ہیں یا ظالم؟ ایک خون کے بدلے میں ہزار آدمی قتل ہو چکے اب کیا سارا جہان قتل کراؤ گے؟
اتنا کہنا تھا کہ آپ علیہ السلام کا خون بند ہو گیا۔
آپ علیہ السلام کی قبر مبارک جامع دمشق میں ہے۔
(بحوالہ حکایات اولیاء)
حاصل تحریر:
غرض اس بیان سے یہ ہے کہ بجز اللہ تعالی کے کسی سے استعانت (مدد) نہ چاہئے کہ جب ایک نبی کو بھی اللہ تعالی نے بطور تنبیہ کے آرا سے چروا دیا تو سوچئے ہماری حیثیت کیا ہے۔
چنانچہ اس سے واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نہ تو کسی پر ناحق ظلم کریں اور نہ اللہ تعالی کے سوا کسی سے مدد طلب کریں۔
اللہ تعالی ہمیں سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔

No comments:

Post a Comment

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here