Popular Posts

Thursday, April 21, 2016

غیبت اور اس سے بچنے کا طریقہ

اللہ جل شانہ وعم نوالہ نے اپنے حبیب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو جن بے شمار صفات سے سرفراز فرمایا ہے ان میں سے تین صفات ”بشیر،نذیر،داعی الیٰ اللہ“ہیں۔

اول کا تعلق اللہ کی اطاعت پر ابھارنے اور فرماں برداری پر انعامات و اعمال صالحہ کے فضائل اور مطیع بندوں کے بہترین انجام اور مقام کو بیان کرنے کے ساتھ ہے تو دوسری صفت کا تعلق نا فرمانیوں اور گناہ سے بچانے اور گناہ کے اثرات بیان کرنے،معصیت کے انجام سے ڈرانے اور نجات دلانے کے ساتھ ہے اور ان دونوں صفات کا اظہاردعوت الیٰ اللہ یعنی اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلانے اور ملانے کے ذریعہ ہوا۔نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں تو ان کی امت آخری امت ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے طفیل ان صفات سے ان کی امت مرحومہ کو بھی نوازا گیا ہے اور یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے اور اس امت کی خیر وبھلائی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:﴿کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للِنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾․(پارہ نمبر4)

”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے نفع کے لیے بھیجے گئے کہ بھلی باتوں کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔“

دوسری جگہ ارشاد ہے کہ:” تم میں سے ایک جماعت خیر کی طرف بلانے والی ہونی چاہیے، جو بھلائی کا حکم کرے اور برائیوں سے روکے۔“معروف وہ تمام اعمال ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اورمنکر وہ تمام افعال ہیں جن سے روکا گیا اور بچنے کاحکم دیا گیا ہے۔اول کو مامورات و عبادات،نیکی کے کام اور دوسرے کو منہیات وگناہ کہتے ہیں۔

علمائے راسخین نے لکھا ہے کہ جو درجہ احکامات کی بجا آوری کا ہے وہی مرتبہ معاصی ومنہیات سے بچنے کا بھی ہے اور جو حکم اللہ کے بندوں کو اطاعت پر لانے کی کوشش کا ہے۔وہی حکم معاصی وگناہوں سے بچانے کا بھی ہے۔عام طورسے مسلمانوں میں اعمال صالحہ کے فضائل اور ان کے اجروثواب کو خوب بیان کیا جاتا ہے، اپنی جگہ یہ بھی ضروری ہے، لیکن حکمت اور مصلحت کے ساتھ منکرات و معاصی اور ان پر مرتب ہو نے والی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کو بیان کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ ناراضگی کے ڈر سے ایمان والا اللہ کریم کی نافرمانی سے بچے۔

اسی لگن وکڑھن و فریضہ کی نیت سے اپنے تمام مسلمان بھائیوں اوربہنوں کی خدمت میں ان سطور میں ایک ایسے گناہ کا تذکرہ کرنا ہے جس میں ابتلا اور رواج ہمارے معاشرے میں خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا جب کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور عام طور سے اس سے بے تو جہی ہے۔اللہ کریم ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔

وہ گناہ کبیرہ مسلمان کی غیبت و آبروریزی ہے اور (بدظنی، بدگمانی)۔

برکة العصرکة قطب الاقطابشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ نے فضائل ماہ رمضان کی فصل اول میں بہت ہی درد بھرے الفاظ میں قلبی کڑھن و بے چینی کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

”ہم لو گ اس سے بہت ہی غافل ہیں۔عوام کا ذکر نہیں، خواص مبتلا ہیں۔ان لوگوں کو چھوڑ کر، جو دنیادار کہلاتے ہیں،دین داروں کی مجالس بھی بالعموم اس سے کم خالی ہوتی ہیں ۔اگر اپنے یا کسی کے دل میں کچھ کھٹک بھی پیدا ہو جائے تو ا س پر اظہارِ واقعہ اور بیانِ حقیقت کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔

ہم اپنی محفلوں ،مجلسوں اور گفتگو پر جب نظر ڈالیں گے تو پھر ہی اندازہ ہو گا کیا کما کر اور گنوا کراٹھتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس گناہ کبیرہ کی نفرت نصیب فرمایا کر چھوڑنے،بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سود کے علاوہ اتنے سخت الفاظ ذکر نہیں فرمائے۔نبی کریم رحمةللعالمین صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس معصیت پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:﴿وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ﴾یعنی ”ایک دوسرے کی غیبت مت کرو (کیوں کہ یہ ایسابرا عمل ہے جیسے اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا)کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے؟تم اس کو برا سمجھتے ہو“لہٰذا جب اس عمل کو برا سمجھتے ہو تو غیبت کو بھی برا سمجھو۔

سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ”سود بہت بڑا گناہ ہے۔بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے، اس گناہ کا ادنی درجہ یہ ہے کہ ”العیاذباللہ“ جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا (بدکاری) کرے“ پھر فرمایا کہ سب سے بدترین سودیہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی آبرو (عزت) پر حملہ کرے۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ”غیبت کا گناہ زنا کے گناہ سے بھی بد تر ہے(کیوں کہ زنا کو گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن غیبت کو گناہ نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ عام مشاہدہ ہے)۔“

غیبت کی تعریف
ہمارے حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیاہے کہ”ایک صحابینے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! غیبت کیا ہے؟نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ذکرک اخاک بما یکرہ“ کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں ایسی بات کرنی جو اسے نا گوار ہو۔سائل نے پوچھا”ان کان فی اخی ما اقول؟“اگر اس میں واقعةًوہ بات موجود ہو جو کہی گئی ہے؟حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب ہی تو غیبت ہے۔اگر واقعةًموجود نہ ہو تب تو بہتان ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے۔

غیبت گنا ہ کبیرہ!
علمائے امت نے تحریر فرمایا ہے جس طرح شراب پینا،ڈاکہ ڈالنا ،خنزیرکا گوشت کھانا گناہ کبیرہ ہیں، یہ غیبت بھی اسی طرح، بلکہ اس سے سخت گناہ اور قطعی حرام ہے۔کیو ں کہ بولنے والا اور سننے والا دونوں ہی شریک ہوتے ہیں اور معاشرے پر اس کے اثرات متعدی ہوتے ہیں اور کئی گناہ(بد گمانی،تہمت،چغلی، بہتان)وجود میں آتے ہیں ۔

غیبت کر نیوالوں کا انجام !
سنن ابی داؤد میں حضرت انس  سے مروی ہے۔”قَالَ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم: لما عرج بی مررت بقوم لھم اظفار من نحاس، یخمشون بھا وجوھھم و صدورھم، فقلت:من ھوٴلآء یا جبریل؟قال: ھوٴلآء الذین یأکلون الناس، ویقعون فی أعراضھم“․ (کتاب الادب،باب الغیبة) 

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”جب مجھے معراج کرائی گئی تو وہاں میرا گذر ایسے لوگوں پر ہوا جو اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے وسینے کو نوچ رہے تھے۔میں نے حضرت جبرئیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے بتایا کہ یہ ”وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے(غیبت کرتے تھے)اورلوگوں کی عزت وآبرووٴں پر حملے کیاکرتے تھے۔“اللہ جل شانہ ہماری حفاظت فرمائیں۔

ایک حدیث پاک میں ہے کہ غیبت کرنے والوں کو پل صراط کے اوپر جانے سے روک دیا جائے گااور کہا جائے گا کہ تم آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک اس غیبت کا کفارہ ادا نہ کردو گے، یعنی جن کی غیبت کی ہے ان سے معافی نہ مانگ لو اور وہ تمہیں معاف نہ کردیں،اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے۔

دو اہم واقعے
ہمارے حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے نقل فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا۔روزے میں اس شدت سے بھوک لگی کہ ناقابل برداشت بن گئی،ہلاکت کے قریب پہنچ گئیں۔صحابہ کرام  نے دریافت کیا تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجا اور قے کرنے کا حکم فرمایا۔ دونوں نے قے کی تو تازہ کھایا ہوا خون اور گوشت کے ٹکڑے نکلے۔صحابہ کرام  کی حیرت پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال روزی سے تو روزہ رکھا اور حرام چیزوں کو کھایا کہ لوگوں کی غیبت میں مشغول رہیں۔

دوسرا اہم واقعہ
بندہ نے اپنے بڑوں سے سنا کہ ایک مرتبہ حضرت لقمان حکیم نے اپنے خادم وغلام کو جانور ذبح کرنے کا حکم فرمایا اور کہا کہ سب سے عمدہ اور بہترین حصہ لے کر آوٴ،وہ زبان اور جگر لایا،دوسرے دن پھر ذبح کرنے کا حکم دے کر کہا کہ آج سب سے خراب گوشت کا حصہ لانا۔چناں چہ اس نے دوسرے دن بھی زبان و جگرہی پیش کیا،جس پر تعجب ہوا اور دریافت فرمایا کہ یہ کیا بات ہے کہ ایک ہی چیز عمدہ وطیب بھی اور خراب و خبیث بھی؟اس نے دست بستہ عرض کیا کہ حضرت! اگر یہ صحیح ہے تو تمام بدن و اعمال صحیح اور اگر یہ خراب تو پھر سب کچھ خراب ہے۔ 

عبرت ناک خواب
حضرت ربعی رحمةاللہ علیہ ایک تابعی ہیں ،وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے باتیں کررہے ہیں ،میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا،دوران گفتگو غیبت شروع ہو گئی،مجھے یہ بہت ناگوار ہوا اورمیں اٹھ کر چلا گیا،تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ غیبت کا موضوع ختم ہو گیا ہو گا، چناں چہ واپس آکر بیٹھ گیا پھر تھوڑی دیر مختلف باتیں ہوتی رہیں،اس کے بعد غیبت کا سلسلہ شروع ہو گیا،اب میری ہمت کمزور پڑگئی اور میں اٹھ کرنہ جا سکا۔

ان لوگوں کی غیبت پہلے تو میں سنتارہا اور پھر میں نے بھی غیبت میں ایک دو جملے کہہ دیے۔جب اس مجلس سے اٹھ کر گھر آگیا اور رات کو سویا تو خواب دیکھا ”انتہائی سیاہ فام(حبشی)آدمی ایک بڑے طشت میں میرے پاس گوشت لایا، غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے اور سیاہ فام آدمی مجھے یہ گوشت کھانے کو کہہ رہا ہے کہ کھاوٴ! یہ خنزیر کا گوشت۔میں نے کہا کہ میں تو مسلمان آدمی ہوں،یہ گوشت ناپاک حرام ہے، کیسے کھاوٴں؟اس نے کہا کہ تمہیں کھانا پڑے گا اور وہ ٹکڑے اٹھا، اٹھا کر زبردستی میرے منہ میں ٹھونسنے شروع کردیے۔میں منع کررہا ہوں اور وہ ٹھونس رہا ہے۔اسی شدید اذیت وتکلیف میں آنکھ کھل گئی۔

بیدار ہونے کے بعد سے تیس دن تک میرایہ حال رہا کہ جب بھی کھانے کے وقت کھانا کھاتا تو خنزیر کا گوشت بدترین ،بدبودار ،خراب وہی ذائقہ، جو خواب میں کھاتے ہوئے محسوس ہوا تھا، میرے کھانے میں شامل ہو جاتا، اس واقعہ اور خواب کے ذریعہ اللہ کریم نے مجھے متنبہ کردیا کہ ذراسی دیر جو میں نے غیبت کی تھی اس کا یہ اثر ہے کہ تیس دن تک براذائقہ برداشت کرنا پڑا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

غیبت کا تعلق اللہ جل شانہ کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کی حق تلفی سیبھی ہے، یہی وجہ کہ اللہ تعالیٰ شانہ اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بہت ہی سخت الفاظ کے ذریعہ اس کی حرمت کو بیان کیا ہے۔یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مردوعورت،امیر،غریب،مالک،مزدور،استادو شاگرد، والدین، میاں بیوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ،آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔غیبت کا دنیا میں بدترین اثریہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قلوب میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اللہ کی رحمت سے محرومی ہو جاتی ہے۔آپس کی محبتیں ختم ہو جاتی ہیں اور دیگر کئی گناہ وجود میں آتے ہیں، ہم کو اس طرف بہت ہی توجہ کرنی چاہیے کہ ابتلائے عام ہے۔اس طرف بھی توجہ کریں کہ ماتحتوں،ملازمین،گھر میں کام کرنے والیوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کے بجائے دعائیہ جملے کہہ دیا کریں۔مثلاً اللہ تم کو ہدایت دے،اللہ تمہیں جنت میں لے جائے،اللہ تم کو نیک بخت کرے۔

غیبت کا کفارہ
ہم مسلمانوں کو کسی بھی حال میں نا امید نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کو رحمةللعالمین،ایمان والوں پر انتہائی مہربان بنایا ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمام گناہوں سے بچنے،بالخصوص غیبت سے چھٹکارا پانے اور تلافی کا طریقہ بھی اپنی امت کو تعلیم فرمایا۔

(الف)مندرجہ ذیل دعا خوب اہتمام سے اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے۔
”اللہم، انی اتخذ عندک عھداً لن تخلفنیہ، فانما انا بشر، فایما رجل موٴمن اٰذیتہ، او شتمتہ، او لعنتہ، او جلدتہ، او ضربتہ، او غبتہ، او ظننتہ سوءً فاجعلھا لہ صلٰوة و زکٰوةً، تقربہ بھا الیک“․

(ب)ہر مجلس کے اختتام پر مجلس کے کفارہ والی دعا اہتمام سے پڑھی جائے۔سبحانک اللہم وبحمدک، نشھد ان لا الہ الا انت، نستغفرک، ونتوب الیک۔دوسری دعا۔سبحان ربک رب العزت عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمدللہ رب العالمین․

(ج)جس مسلمان کی غیبت کی ہے اس سے معافی مانگی جائے۔اگر معافی مانگنا ممکن نہ ہو تو خوب ایصال ثواب کیا جائے۔

(د)خود غیبت سے بچنے کی کوشش کریں کہ ہر مجلس کے بعد چند لمحوں کے لیے سوچیں کہ غیبت تو نہیں ہوئی۔

(ھ)کوئی غیبت کررہا ہے تو پیار محبت سے اس کو منع کریں یا خود اس مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”فوالذی نفسی بیدہ لا یوٴمن احدکم حتٰی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ“․
”تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک تم اپنے بھائی(دوسرے مسلمان)کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے کرتے ہو۔“

جب ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہماری غیبت کرے تو ہم بھی دوسرے کی غیبت نہ کریں۔

مضمون کی مناسبت سے باتیں تو اور بھی ذہن میں آرہی ہیں، لیکن فی الحال حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ واعلی اللہ مراتبہ کی دعا پر اسی قد پر اکتفا کرتاہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اس بلا(گناہ)سے محفوظ فرمائیں اور بزرگوں،دوستوں(مخلصین،قارئین)کی دعا سے مجھ ناکارہ وسیہ کار کو بھی غیبت سے محفوظ فرمائیں کہ بندہ باطنی امراض میں کثرت سے مبتلا ہے۔

No comments:

Post a Comment

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here