Popular Posts

Thursday, May 4, 2017

بے شک اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمنان ہوتا ہے

اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ
ترجمہ: خوب سمجھ لو کہ اﷲ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے۔

انسان کو حق تعالیٰ نے اپنی ذاتِ پاک کا خلقتاً و فطرتاً عاشق پیدا فرمایا ہے یعنی ہر انسان مرتبہ فطرت انسانیت میں عاشقِ حق ہے۔ حق تعالیٰ نے اس دعویٰ پر ایک دلیلِ مثبت قرآنِ پاک میں ارشاد فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ اے ہمارے بندو! خوب کان کھول کر سن لو کہ تمہارے سینوں میں جو قلوب رکھے گئے ہیں ان کو سکون اور چین صرف ہماری یاد ہی سے مل سکتا ہے۔ ہم تمہارے اور تمہارے قلوب کے خالق ہیں۔ ہم نے تمہارے سینوں میں ایک ایسا مضغۂ لحمیہ یعنی گوشت کا ٹکڑا رکھ دیا ہے جس کی غذا صرف میری یاد ہے۔ رہی یہ بات کہ پھر اہلِ سلطنت اور اہل دولت خدا تعالیٰ کی یاد سے غافل ہونے کے باوجود خوش و خرم کیوں نظر آتے ہیں تو درحقیقت ان کی یہ خوشی ہماری ظاہری آنکھوں سے معلوم ہوتی ہے، ان کے دلوں کو اگر ٹٹولا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ہرگز مطمئن اور چین سے نہیں ہیں۔ نیز یہ کہ فسق و فجور کی گندگی سے ان کے دل بیمار ہوتے ہیں قلبِ سلیم کی غذا صرف ذکرِ حق ہے، بیمار قلب کا تو احساس بھی غلط ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم آپ اگر پائخانہ کا ٹوکرا دیکھ لیں یا سونگھ لیں تو فوراً متلی قے بلکہ بے ہوشی تک لاحق ہونے کا امکان ہوتا ہے لیکن بھنگی رات دن پائخانہ کے پاس رہتا ہے اس کے باوجود اس کی بد بو سے اس کے احساس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ اس بھنگی کا احساسِ سلیم پاخانہ کی گندگی سے رفتہ رفتہ زائل ہو گیا۔ اب آپ چاہیں تو تجربہ کے طور پر اس امر کو آزما لیں کہ دنیائے مردار کی لذّات میں رات دن غرق رہنے والے کسی انسان کو چند دن کے لیے کسی اللہ والے کی صحبت میں رکھیں اور یہ شخص حق تعالیٰ کی یاد میں لگ جائے پس رفتہ رفتہ اس کا وہ سابق فطری اور طبعی مذاق اس کے قلب میں بیدار ہونا شروع ہو جائے گا اور ان شاء اللہ  ثم ان شاء اللہ ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ اسی شخص کو اب ذکر چھوڑ کر مشاغلِ دنیوی میں لگنا بہت مشکل اور دو بھر ہوجائے گا اب اس کے شب و روز غفلت میں نہیں گزر سکتے۔ شب و روز کیا معنیٰ ایک لمحہ اور ایک سانس غفلت میں گزارنا اس کو موت سے بدتر نظر آئے گا۔ ہر وقت ایک کیفیت حضوری اس کے قلب کو میسر ہو گی گویا دل ہر وقت اللہ کو دیکھ رہا ہے اس کر و فرِ قرب کے سامنے بھلا پھر دنیائے فانی کی لذتوں کی طرف اس کا قلب کب رجوع کر سکتا ہے؟ اس وقت اس کو تمام مجموعۂ لذاتِ کائنات مردار نظر آئے گا اور اللہ کی یاد کی برکت سے ایسی سلطنت قلب کو ملے گی کہ اس کے سامنے سلطنتِ ہفت اقلیم ہیچ نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سلاطین کو جب ذکر کا مزہ مل گیا تو آدھی رات کو چپکے سے گدڑی اوڑھی اور جنگل کو نکل گئے۔

عظیم الشان ذکر

استغفار کرنا: اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا معافی مانگنا بہت بڑا ذکر ہے جو اپنے مالک کو راضی کر لے وہ اصلی ذاکر ہے اس لیے میں نے یہ آیات تلاوت کی کہ اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ اگر توبہ کر کے مالک کو خوش کر لو معافی مانگ لو تو تمہارے قلب کو چین آئے گا کیوں کہ ذکر سے دل کے چین کا واسطہ اور رابطہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارے سینہ میں دل ہم نے بنایا ہے۔ لہٰذا اس دل کو چین صرف ہماری یاد ہی سے ملے گا اور نافرمانی اور گناہ سے تم بے چین اور پریشان رہوگے۔ بے چینی کا سبب گناہ ہے لہٰذا اس کا علاج یہی ہے کہ استغفار کر کے تم ہم کو راضی کر لو۔ یہ بہت بڑا ذکر ہے اس سے بڑا ذکر کیا ہو گا کہ تم اپنے مالک کو راضی کر لو لہٰذا اس آیت کی تلاوت کی یہ وجہ تھی کہ استغفار بہت بڑا ذکر ہے اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ جلدی استغفار اور جلدی توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر تم اللہ تعالیٰ کو  خوش کر دو ۔ یہ بہت بڑا ذکر ہے اس کی برکت سے تم چین و سکون پا جاؤ گے ورنہ کہیں سکون نہیں پاؤگے  ؎

دل گلستاں تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار

دل  بیاباں   ہوگیا   عالم   بیاباں  ہوگیا

جب دل تباہ ہوتا ہے تو سارا عالم اندھیرا لگتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لو گے تو ان شاء اللہ اس کی برکت سے دل باغ و بہار ہو جائے گا، چین آجائے گا اور جب دل میں چین ہوتا ہے تو سارے عالم میں چین نظر آتا ہے، جب دل غم زدہ ہوتا ہے تو سارے عالم میں غم نظر آتا ہے۔ یہ آنکھیں تابعِ دل ہیں، بصارت تابعِ بصیرت ہے یعنی قلب کا جو حال ہوگا آنکھ کا وہی حال ہوگا۔ اگر دل خوش ہے تو ہر طرف خوشی نظر آئے گی اور اگر دل میں غم ہے تو ہر طرف غم نظر آئے گا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار اور توبہ اور ذکر کی برکت سے دل میں چین آئے گا تو سارے عالم میں آپ کو چین ملے گا۔ بال بچوں میں بھی سکون سے وہی آدمی رہتا ہے۔ اور جس کا دل گناہوں سے پریشان رہتا ہے وہ اپنی بیوی سے بھی لڑتا ہے،بچوں کی بھی پٹائی کرتا ہے، ہر شخص سے اُلجھتا ہے کیوں کہ اس کا دل معتدل اور نارمل (normal)نہیں ہے مثل پاگل ہو جاتا ہے۔ پاگل آدمی ہر ایک کو ستاتا ہے پاگل کا کیا بھروسہ۔ یاد رکھو جو عقل کا خالق ہے جب اس کو راضی کرو گے۔ تو عقل ٹھیک رہے گی ورنہ جو جتنا گناہ کرتا ہے عقل خراب ہوتی چلی جاتی ہے اور عقل کی خرابی سے آدمی پاگل ہوتا ہے اور پاگل نہ خود چین سے رہتا ہے نہ چین سے رہنے دیتا ہے۔ آج کا جو مضمون ہے بس اللہ تعالیٰ کا کرم ہے اور آج کیا سارے عالم میں اخترؔ جہاں جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مدد شاملِ حال ہوتی ہے  ؎

آپ  چاہیں ہمیں  ہے کرم آپ کا

ورنہ ہم اس کرم کے تو  قابل  نہیں

بزرگوں کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی ستاری اور پردہ پوشی اور رحمت کی یاری اور بارش ہے۔

                                                                                                                                          (ماخوذ از: خزائن القرآن)

شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

3 comments:

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here