Popular Posts

Thursday, May 4, 2017

اللہ تعالیٰ سے اشد محبت

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ
ترجمہ: اور جو مومن ہیں ان کو (صرف) ﷲ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جملہ خبریہ سے یہ آیت نازل فرمائی وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا  لِّلہِ مجھ پر ایمان لانے والوں کے دل میں ،میرے ماننے والوں کے دل میں میری محبت تمام محبتوں سے اشد ہے۔ اس آیت کی تفسیر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ نبوت سے بصورت جملہ انشائیہ یعنی بصورت دعا مانگ کر فرمائی جس میں اشد محبت کے حدود اور اشد محبت کا معیار آپ نے اللہ سے مانگا کہ:

اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ یہ جملہ انشائیہ صورتاً تو جملہ انشائیہ ہے حقیقتاً خبر ہے۔ علماء حضرات جانتے ہیں کہ عربی قواعد کی رو سے دعا انشاء میں شامل ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا...الٰخ تو جملہ خبر یہ ہے لیکن سرورِ عالم صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس جملہ خبریہ کی تفسیر جملہ انشائیہ سے کیوں فرمائی؟ اختر زندگی میں آج پہلی دفعہ یہ مضمون بیان کر رہا ہے۔ یہ اللہ کی عطااور بھیک یہاں راستہ میں قونیہ سے واپسی پر بہ طفیل مولانا جلال الدین رومی مل رہی ہے۔ ان کا فیض میں محسوس کر رہا ہوں۔

تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے جملہ خبریہ کے بجائے جملہ انشائیہ دعائیہ کیوں استعمال کیا؟ جواب یہ ہے کہ ازراہِ بندگی، از راہِ عبدیت جملہ انشائیہ استعمال فرما کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کمالِ بندگی اور اپنی عبدیتِ کاملہ پیش کی کہ اے اللہ! اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ  کے جملہ خبریہ کے مصداق ہم کہاں ہو سکتے ہیں، اتنی اشد اور عظیم محبت ہم کہاں سے لائیں گے لہٰذا ہم جملہ انشائیہ دعائیہ کے ذریعہ آپ کے جملہ خبریہ کی تکمیل کا راستہ اختیار کرتے ہیں تاکہ احتیاج اور بندگی کے راستہ سے ہم آپ کی اشد محبت کو مانگ لیں اور جب آپ عطا فرمائیں گے تو اشد محبت کا معیار ہمیں حاصل ہو جائے گا اور آپ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ، اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ اَھْلِیْ اور اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ ہوجائیں گے یعنی آپ ہمیں جان سے زیادہ، اہل و عیال سے زیادہ اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ پیارے ہو جائیں گے اور اس وقت آپ کے کرم سے ہم اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ کے جملہ خبریہ کے مصداق ہوجائیں گے۔

تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ جملہ انشائیہ حقیقت میں جملہ خبریہ ہے یعنی جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی اشد محبت آتی ہے اس کو محبت کے یہ تین معیار حاصل ہو جاتے ہیں اور یہی اشد محبت کے حدود ہیں کہ اللہ اس کے دل میں جان سے زیادہ، اہل و عیال سے زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب ہو جاتا ہے لیکن جملہ خبریہ کے بجائے جملہ انشائیہ استعمال فرمانا اس میں سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اظہارِ عبدیتِ کاملہ و اظہارِ احتیاج بندگی ہے۔ جملہ خبریہ میں دعویٰ ہوجاتا کہ ہم لوگ اس مقامِ محبت پر فائز ہیں۔ لہٰذا جملہ انشائیہ دعائیہ سے آپ نے اس مقامِ محبت کو مانگا اور آپ کو تو یہ مقام حاصل تھا اُمت کو سکھا دیا کہ اس طرح مانگو اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ اے اللہ! آپ ہمیں اپنی محبت اتنی دے دیجیے کہ ہم اپنی جان سے زیادہ آپ سے محبت کریں۔ ہر لمحہ آپ پر فدا رہیں، اپنے دل کو توڑ دیں آپ کے قانون کو نہ توڑیں۔ آپ کو ناخوش کر کے اپنے دل کو خوش نہ کریں وَمِنْ اَھْلِیْ اور اپنے بال بچوں سے زیادہ آپ کی محبت کریں۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی بچوں کو خوش کرنے کے لیے ہم آپ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کر بیٹھیں اور وَمِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ اور حالت پیاس میں ٹھنڈے پانی سے جتنا مزہ آتا ہے کہ رگ رگ میں جان آجاتی ہے اے اللہ! اس سے زیادہ ہم آپ سے محبت کریں۔ جو اللہ کے عاشق ہیں جب وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی رگ رگ میں جان آجاتی ہے اور ان کی جان میں کروڑوں جان آ جاتی ہے۔ اللہ کے عاشق اللہ کے نام سے زندگی پاتے ہیں جیسے پیاسا پانی پی کر اپنی جان میں جان محسوس کرتا ہے، جو اللہ کے پیاسے ہیں وہ اللہ کے نام کا شربت ایمان افزا، شربت محبت افزا، شربت یقین افزا، شربت احسان افزا پیتے ہیں۔ ہمدرد کا شربت روح افزا اس کے سامنے بھلا کیا حقیقت رکھتا ہے۔

یہ حدیث تو بخاری شریف کی ہے۔ مولانا جلال الدین رومی کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس جملہ انشائیہ کی وجہ بیان کرتے ہیں دیوان شمس تبریز میں کہ  ؎

بجز  چیزے  کہ  دادی  من  چہ  دارم

اے اللہ !جو آپ ہمیں دیں گے وہی تو ہم پائیں گے، اگر آپ ہی ہمیں نہ دیں گے تو ہم کہاں سے لائیں گے، ہم تو آپ کے بھک منگے ہیں، آپ کے فقیر ہیں۔ لہٰذا جو آپ نے دیا ہے وہی تو ہمارے پاس ہے  ؎

چہ  می  جوئی  ز جیب  و  آستینم

آپ میری جیب و آستین میں کچھ نہیں پائیں گے۔ اس میں کیا رکھا ہے، جو بھیک آپ دیں گے وہی تو ہم پائیں گے لہٰذا پہلے محبت کی بھیک آپ ہم کو دے دیجیے پھر ہم سراپا محبت بن جائیں گے۔ جملہ انشائیہ کی وجہ مولانا نے عاشقانہ انداز میں بیان کی کہ اے اللہ ہم آپ سے آپ کے فضل کی بھیک مانگتے ہیں کہ اشد درجے کی محبت آپ ہمیں دے دیں تاکہ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا  لِّلہِ کے ہم مصداق ہو جائیں۔ اسی اشد محبت کو عارف رومی دوسری جگہ اس طرح مانگتے ہیں  ؎

بر کفِ من نہہ شرابِ آتشیں

بعد  ازیں  کرّ وفرِ  مستانہ  بیں

اے خدا پہلے خوب تیز والی اپنی محبت کی شراب مجھ کو پلا دیجیے پھر میری عاشقی کا تماشا دیکھیے۔

جس آیتِ مبارکہ کا انتخاب کیا ہے اس کا موضوع صرف یہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی محبت بندوں کے ذمے کس قدر متعین ہے یعنی کتنی محبت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتے ہیں اور کس قدر محبت ہو تو انسان اللہ کا پورا فرماں بردار ہو سکتا ہے۔ دنیا کی محبت جائز، ماں باپ کی بال بچوں کی، کاروبار کی مال و دولت کی، ان چیزوں کی محبت شدید بھی جائز ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری فطرت بیان فرمائی ہے:

وَ اِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیۡدٌ

حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ کے زمانہ میں کسی جنگ کی فتح کا مالِ غنیمت جب مسجدِ نبوی میں آیا اور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مال کا ڈھیر لگ گیا اس وقت آپ نے فرمایا کہ یا اللہ! یہ مالِ غنیمت دیکھ کر میرا دل خوش ہوا اور محبت اس کی ہے مگر آپ اپنی محبت کو دنیا کی تمام محبتوں پر غالب فرما دیجیے تو معلوم ہوا کہ محبتِ شدید بھی جائز ہے اور محبتِ حبیب بھی جائز ہے یعنی اس کو حبیب بنا لینا بھی جائز ہے۔

تو حبیب کا اطلاق یہاں مخلوق کے لیے ہے لیکن احب اور اشد محبت اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے اگر اللہ تعالیٰ کی محبت احب اور اشد نہیں ہے تو پھر بندہ پورا فرماں بردار نہیں ہو سکتا۔ دل سے بھی زیادہ، جان سے بھی زیادہ، اہل و عیال سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے ہونے چاہئیں چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محبت کو اس عنوان سے طلب فرمایا ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَ اَھْلِیْ وَمِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ یا اللہ! اپنی محبت میرے اندر میری جان سے زیادہ عطا فرما دیں اور اہل و عیال سے بھی زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ یعنی پیاسے کو جتنا ٹھنڈا پانی عزیز ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ اے اللہ آپ مجھے محبوب ہوں تو معلوم ہوا یہ خطوط اور حدود ہیں محبت کے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث شریف کے اس آخری جُز کا اپنے ایک شعر میں گویا ترجمہ کر دیا ہے، یہیں کعبہ شریف میں غلاف کعبہ پکڑ کر عرض کیا ؎

پیاسا  چاہے  جیسے   آبِ   سرد   کو

تیری  پیاس اس سے بھی بڑھ کر مجھ کو ہو

جس طریقہ سے ایک پیاسے کو ٹھنڈا پانی پی کر رگ رگ میں سیرابی اور ایک نئی جان عطا ہوتی ہے خدائے تعالیٰ کے عاشقوں کو اللہ کا نام لے کر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

آیت وَ کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ سے تاقیامت اولیاء کے وجود کا استدلال

درد ہو، پیاس ہو، طلب ہوتو آج بھی قطب و ابدال نظر آ جائیں کیوں؟ اس لیے کہ کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کی آیت قیامت تک کے لیے ہے۔ صالحین متقین کا ملین کی صحبت میں خدا بیٹھنے کا حکم دے اور کاملین نہ پیدا کرے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی باپ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں سے کہے کہ بیٹو! روزانہ آدھا سیر دودھ پیا کرو تاکہ طاقتور ہو جاؤ اور دودھ کا انتظام نہ کرے پس جب اللہ تعالیٰ نے کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ کا حکم قیامت تک کے لیے نازل فرما دیا تو معلوم ہوا کہ قیامت تک اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے۔

پس یہ کہنا کہ اب اولیاء اللہ نہیں رہے یہ نفس کا بہت بڑا دھوکا ہے۔ واللہ میں حدودِ حرم میں کہتا ہوں کہ آج بھی خدائے تعالیٰ کی ولایت کے تمام راستے کھلے ہوئے ہیں، آج بھی اللہ کی دوستی کا دروازہ کھلا ہوا ہے، حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے سینوں میں جیسی اللہ کی ولایت تھی آج بھی اس کا دروازہ کھلا ہوا ہے صرف نبوت کا دروازہ بند ہوا ہے، آج بھی ہم اور آپ اللہ کے فضل سے ولی بن سکتے ہیں یہاں تک کہ صدیقیت کا مقام بھی کھلا ہوا ہے، اللہ نے قرآن میں جمع کا صیغہ صدیقین استعمال فرمایا ہے، صدیق کلی مشکک ہے، اس کے اندر متفاوت درجات ہیں، صدیق اکبر تنہا صدیق نہیں تھے البتہ صدیق اکبر جیسا کوئی صدیق نہیں ہو سکتا، وہ اس صدیقیت کی کلی کے فردِ کامل تھے، اکمل ترین تھے لیکن یہ ہماری غفلت ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم حاجی امداد اللہ نہیں بن سکتے۔

دوستو! قیامت تک اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے، ولایت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور ولایتِ علیا کے بھی،یہ نہیں کہ اب چھوٹی موٹی ولایت ہی مل سکتی ہے اور اب اولیاء اللہ گھٹیا درجہ کے پیدا ہوں گے ہر گز یہ عقیدہ نہ رکھیے، یہ غلط عقیدہ ہے۔

آیت اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ سے اہل ﷲ سے تعلق پر استدلال

ایک عالم کے سامنے حضرت حکیم الامت تھانوی نے فرمایا کہ ہر شخص کو کسی اللہ والے سے تعلق قائم کرنا ضروری ہے تو انہوں نے کہا کہ صاحب ضروری کیوں ہے فرمایا کہ فرضِ عین ہے۔ اس لیے کہ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ یہ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کا بدل ہے اور بدل کی چار قسموں میں سے بدل الکل ہے اور بدل ہی مقصود ہوتا ہے تو اللہ کا راستہ منعم علیہم کا ہاتھ پکڑنے سے طے ہوتا ہے۔

                                                                                                                                          (ماخوذ از: خزائن القرآن)

شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

No comments:

Post a Comment

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here