Popular Posts

Thursday, May 4, 2017

اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ

اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ  وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ
ترجمہ: یقینا اﷲ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے

اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔

اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ مضارع سے نازل فرمایا اور مضارع میں دو زمانے ہوتے ہیں حال اور مستقبل۔ تو ترجمہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم اپنے بندوں کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں موجودہ حالت میں بھی اور اگر آیندہ بھی تم سے کوئی خطا ہو جائے گی تو ہم تمہاری توبہ قبول کر کے تمہیں معاف کر دیں گے اور صرف معاف ہی نہیں کریں گے محبوب بھی بنا لیں گے اور تمہیں اپنے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہونے دیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال اور مستقبل دونوں کے تحفظ کی ضمانت دے رہے ہیں کہ توبہ کی برکت سے حا لاً و استقبالاً ہم تم سے پیار کریں گے۔ ہم ایک دفعہ جس سے پیار کرتے ہیں ہمیشہ کے لیے پیار کرتے ہیں، ہم بے وفاؤں سے پیار ہی نہیں کرتے کیوں کہ ہمیں مستقبل کا بھی علم ہے کہ کون آیندہ ہم سے بے وفائی کرے گا اور کون با وفا رہے گا۔ ہم پیار اسی کو کرتے ہیں جو ہمیشہ باوفا رہتا ہے یا اگر کبھی بوجۂ بشریت کے اس کی وفاداری میں کوئی کمزوری بھی آئے گی اور اس سے کوئی خطا بھی ہو جائے گی تووہ پھر توبہ کر کے با وفا ہوجائے گا۔ توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہوتا۔ اور یہ بات دنیا کی ہر محبت کے مشاہدات میں بھی موجود ہے جیسے بچہ ماں کی چھاتی پر پاخانہ پھِر دیتا ہے تو کیا ماں اس کو دھو کر پھر پیار نہیں کرتی؟ اور کیا پھر وہ دوبارہ پاخانہ نہیں پھرتا؟ ماں کو یقین ہوتا ہے کہ یہ پھر پھِرے گا مگر وہ اپنی شفقت سے نہیں پھِرتی حالاں کہ یقین سے جانتی ہے کہ یہ ہگتا رہے گا مگر محبت کی وجہ سے عزم رکھتی ہے کہ میں دھوتی رہوں گی۔ تو کیا اللہ تعالیٰ کی محبت ماں کی محبت سےبھی کم ہے۔ ماؤں کو محبت کرنا تو انہوں نے ہی سکھایا ہے لہٰذا ہمیں حکم دے دیا اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ تم اپنے رب سے بخشش مانگتے رہو۔ کیوں؟ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا کیوں کہ تمہارا رب بہت بخشنے والا ہے، غَافِرْ نہیں ہے غَفَّارْ ہے کَثِیْرُ الْمَغْفِرَۃِ ہے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی ورنہ معافی کا حکم کیوں دیتے۔ اگر ہم معصوم ہوتے تو اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ نازل نہ ہوتا۔ چوں کہ صدورِ خطا کا معاملہ یقینی تھا اس لیے استغفار کا حکم نازل ہوا۔ لہٰذا ماضی کے گناہوں سے معافی مانگو اور آیندہ کے لیے توبہ اور عزمِ مصمّم کرو کہ آیندہ کبھی یہ گناہ نہ کروں گا۔ لاکھ بار خطائیں ہو جائیں لیکن جو توبہ کرتا رہتا ہے یہ علامت ہے کہ یہ بندہ حال میں بھی محبوب ہے اور مستقبل میں بھی اللہ کا محبوب رہے گا۔ جو مستقبل میں بے وفائی کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ محبوب ہی نہیں بناتے لہٰذا حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو مرتد ہوئے وہ پہلے ہی سے خدا کے مبغوض تھے اگرچہ حالت اسلام ظاہر کر رہے تھے لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ وہ مرتد ہو جائیں گے لہٰذا وہ اللہ کے دائرۂ محبوبیت میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے اس لیے خطاؤں سے مایوس نہ ہو۔ کوشش تو کرو، جان کی بازی لگا دو کہ کوئی خطا نہ ہو لیکن بر بنائے بشریت اگر کبھی پھسل جاؤ تو فوراً توبہ کر کے ان کے دامنِ رحمت اور دامنِ محبوبیت میں آجاؤ اور اگر شیطان ڈرائے کہ آیندہ پھر یہی خطا کرو گے تو کہہ دو کہ میں پھر توبہ کر لوں گا۔ ان کی چوکھٹ موجود ہے اور میرا سر موجود ہے، میری جھولی باقی ہے اور ان کا دست کرم باقی ہے۔ یہ میرا سر سلامت رہے جو ان کی چوکھٹ پر پڑا رہے اور میرا دست سوال سلامت رہے جس سے میری جھولی بھرتی رہے۔ کیا یہ الفاظ اور یہ زبان زمین کی زبان ہے، یہ آسمان سے عطا ہوتی ہے۔ میرا ایک شعر ہے  ؎

میرے پینے کو دوستو سن لو

آسمانوں سے مے  اُترتی ہے

خطا ہونا تو تعجب کی بات نہیں کیوں کہ انسان مجموعۂ خطا و نسیان ہے لیکن خطا کے بعد توبہ نہ کرنا اور خطا پر قائم رہنا یہ بات تعجب اور خسارہ کی ہے لہٰذا فوراً توبہ کرو اور اگر شیطان ڈرائے کہ تم پھر یہی خطا کرو گے تو اس سے کہہ دو کہ میں توبہ کر رہا ہوں اور میرا توبہ توڑنے کا ارادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر آیندہ توبہ ٹوٹ جائے گی تو پھر توبہ کروں گا۔ پھر رو رو کے ان کو منا لوں گا۔ خوب سمجھ لیجیے کہ توبہ کی قبولیت کے لیے اتنا کافی ہے کہ توبہ کرتے وقت توبہ توڑنے کا ارادہ نہ ہو، عزمِ مصمم ہو کہ آیندہ ہر گزہرگز یہ گناہ نہ کروں گا۔ بوقت توبہ ارادۂ شکست توبہ نہ ہو تو اس کی توبہ قبول ہے۔ جس کو یہ علم ہو گا شیطان اس کو مایوس نہیں کر سکتا۔

آیتِ شریفہ کی تفسیر بعنوانِ دگر

اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ  وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ

اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا ایک راستہ

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے، ان سے محبت کرتا ہے اور آیندہ بھی محبت کرتا رہے گا۔ جب تک تم توبہ کے کیمیکل اور توبہ کے فعل کا اہتمام رکھو گے جب تک تم دائرۂ توبہ میں رہو گے، تب تک میرے دائرۂ محبوبیت میں رہو گے لیکن جو توبہ چھوڑ دے گا تو محبوبیت کے دائرہ سے اس کا خروج ہو جائے گا اس لیے ماضی میں جو غلطیاں کر چکے ان سے توبہ کر لو تو میرے محبوب ہوجاؤ گے لیکن آیندہ کے لیے اگر شیطان وسوسہ ڈالے کہ تم پھر یہ خطا کرو گے کیوں کہ تمہاری تو بہت پرانی عادت پڑی ہوئی ہے تو آیندہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں امید دلا دی کہ ہم ایسا صیغہ نازل کر رہے ہیں یعنی مضارع جس میں حال بھی ہے اور مستقبل بھی لہٰذا تم گھبرانا مت کہ اگر آیندہ بھی تم سے خطا ہو گی اور تم معافی مانگو گے تو ہم تمہاری توبہ کو قبول کریں گے اور دائرۂ محبوبیت سے تمہارا خروج نہیں ہونے دیں گے۔ ہم تمہاری خطاؤں کی معافی کے ذمہ دار اور کفیل ہیں کیوں کہ توبہ کرنے والوں سے ہم محبت کرتے ہیں۔ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ فرمایا یَرْحَمُ التَّوَّا بِیْنَ نہیں فرمایا، یَغْفِرُ التَّوَّابِیْنَ نہیں فرمایا، یَرْزُقُ التَّوَّابِیْنَ نہیں فرمایا، اللہ تعالیٰ کے جتنے صفاتی نام ہیں سب کو نظر انداز فرما کر صرف صفتِ محبت کا ارشاد ہوا کہ ہم تم سے محبت کرتے ہیں اور آیندہ بھی محبت کرتے رہیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ محبت میں سب کچھ ہے، کسی نعمت کا اس سے خروج نہیں ہے،  ہر نعمت اس میں شامل ہے، اس میں رحمت بھی شامل ہے، مغفرت بھی شامل ہے، رزّاقیت بھی شامل ہے۔ جو آدمی پیارا ہو جاتا ہے تو  ہر ایک اپنے پیارے کو سب کچھ دیتا ہے، پیارے کو پیاری چیز دیتا ہے اور ہر غیر پیاری چیز سے بچاتا ہے۔ یُحِبُّفرمایا کہ محبت میں سب نعمتیں شامل ہیں کہ توبہ کی برکت سے ہم تم کو تمام نعمتوں سے نوازیں گے اور جو چیزیں نقصان دہ ہیں یا زوالِ نعمت کے اسباب ہیں ان سے تمہاری حفاظت کریں گے۔ پیاروں کو پیاری چیز دیں گے اور غیر پیاری سے بچالیں گے۔ لیکن توبہ کب قبول ہے؟ قبول توبہ کی چار شرائط ہیں:

۱) اَنْ یُّقْلِعَ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ توبہ کی قبولیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اس گناہ سے ہٹ جاؤ۔ یہ نہیں کہ توبہ توبہ کر رہے ہیں اور دیکھے بھی جا رہے ہیں کہ صاحب کیا کروں مجبور ہو جاتا ہوں، موہنی شکل دل موہ لیتی ہے، خوب سمجھ لیں کہ ارتکابِ گناہ کے ساتھ توبہ قبول نہیں۔ پہلے گناہ سے الگ ہو جاؤ پھر توبہ کرو خواہ نفس کتنا ہی الگ نہ ہونا چاہے۔ جس طرح بکری بھوسی دیکھ کر اس پر گرتی ہے جب تک کان پکڑ کر الگ نہ کرو، اسی طرح خود اپنا کان پکڑ کر الگ ہوجاؤ۔ نفس پر سوار رہو، نفس کی سواری مت بنو۔

۲) اَنْ یَّنْدَمَ عَلٰی فِعْلِھَا اس گناہ پر دل میں ندامت پیدا ہو جائے اور ندامت کے کیا معنیٰ ہیں۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں:

اَلنَّدَامَۃُ ھِیَ تَاَ لُّمُ الْقَلْبِ

قلب میں الم اور دُکھ پیدا ہو جائے کہ آہ میں نے کیوں ایسی نالائقی کی اور جس کو اپنی نا لائقی اور کمینہ پن کا احساس نہ ہو وہ ڈبل کمینہ ہے۔ ندامت نام ہے کہ دل دُکھ جائے، دل میں غم آ جائے اور توبہ کر کے رونے بھی لگو تاکہ نفس میں جو حرام مزہ آیا ہے وہ نکل جائے جیسے چور چوری کا مال تھانے میں جمع کردے اور آیندہ کے لیے ضمانت دے کہ اب کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا تو سرکار اس کومعاف کر دیتی ہے۔ اشکبار آنکھوں سے استغفار کرنا گویا سرکار میں اپنا حرام مال جمع کرنا ہے، جو حرام لذت آئی تھی اس کو گویا واپس کر دیا کہ اے اللہ! معاف فرما دیجیے۔

۳) اور تیسری شرط ہے اَنْ یَّعْزِمَ عَزْمًا جَازِمًا اَنْ لَّایَعُوْدَ اِلٰی مِثْلِھَا اَبَدًا پکا ارادہ کرے کہ اب دوبارہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا۔

۴) فَاِنْ کَانَتِ الْمَعْصِیَۃُ تَتَعَلَّقُ بِاٰدَمِیٍّ فَلَھَا شَرْطٌ رَّابِعٌ وَّھُوَ رَدُّ الظُّلَامَۃِ اِلٰی صَاحِبِھَا اَوْ تَحْصِیْلُ الْبَرَآءَ ۃِ مِنْہُ

اگر اس معصیت کا تعلق کسی آدمی سے ہے تو توبہ کی چوتھی شرط یہ ہے کہ  اہل حق کو اس کا حق واپس کرے یا اس سے معاف کرائے۔ یہ نہیں کہ مسجد کے وضو خانے سے گھڑی اُٹھا لی اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ میاں معاف کر دو، آیندہ کبھی چوری نہیں کروں گا لیکن یہ سوئزرلینڈ کی گھڑی ہے، سٹیزن ہے، یہ مجھے بہت اچھی معلوم ہوتی ہے، اس کو واپس نہیں کروں گا، اس بار معاف کر دو۔ تو ہرگز معافی نہیں ہو گی، مال واپس کرو۔

توبہ کی یہ چار شرطیں ہیں ،تین شرطیں اللہ کے حقوق ہیں اور چوتھی شرط بندوں کا حق ہے۔ ان شرطوں کے ساتھ توبہ کرنے سے آپ اللہ کے محبوب ہوجائیں گے۔

آیتِ شریفہ میں دوبارہ یُحِبُّ نازل ہونے کا راز

تو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ کہ اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں تَوَّابِیْنَ کو اور محبوب رکھتے ہیں مُتَطَھِّرِیْنَ کو یعنی توبہ کرنے والوں کو بھی اللہ محبوب رکھتا ہے اور طہارت میں مبالغہ کرنے والوں، نجاستوں سے خوب احتیاط کرنے والوں کو بھی محبوب رکھتا ہے۔ عربی گرامر کے لحاظ سے یہاں عطف جائز تھا کہ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ دو بار یُحِبُّ نازل کرنا ضروری نہیں تھا مگر اس میں زبردست معنویت اور اللہ تعالیٰ کا زبردست پیار ہے کہ دوبارہ  یُحِبُّ کو داخل کیا۔ یہ حق تعالیٰ کے کلام کا کمالِ بلاغت ہے کہ محبت کی فراوانی اور دریائے محبت میں طغیانی کے لیے ایک یُحِبُّ کی نسبت تَوَّابِیْنَ کی طرف فرمائی کہ اللہ تَوَّابِیْنَ کو محبوب رکھتا ہے اور دوسرے یُحِبُّکی نسبت مُتَطَھِّرِیْنَ کی طرف فرمائی کہ اللہ مُتَطَھِّرِیْنَ کو بھی محبوب رکھتا ہے۔ اپنے بندوں کو توابیت اور متطہریت ان دو اداؤں پر ان کو اپنا محبوب بنانے کا عمل نازل کرتا ہوں۔ یہ وجہ ہے دوبار یُحِبُّ نازل کرنے کی۔ سبحان اللہ! واہ رے محبوب تعالیٰ شانہ کیا شان ہے آپ کی!

ایک مسئلۂ سلوک کا استنباط

مُتَطَھِّرِیْنَ بابِ تفعل سے نازل فرمایا ۔ اس کے اندر ایک مسئلہ تصوف بھی ہے جو حق تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کسی تفسیر میں ہے یا نہیں لیکن سارے علماء اورمفسرین  ان شاء اللہ اس کو تسلیم کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الطَّاھِرِیْنَ نہیں فرمایا کہ ہم محبوب رکھتے ہیں پاک رہنے والوں کو بلکہ مُتَطَھِّرِیْنَ فرمایا جو بابِ تفعل سے ہے جس میں خاصیت تکلف کی ہوتی ہے اور تکلف کے معنیٰ ہیں کہ تکلیف اٹھاکر کسی کام کو کرنا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ گناہوں کی نجاستوں سے پاک رہنے میں تم کو تکلیف اُٹھانی پڑے، کلفت پیش آئے تو اس سے دریغ نہ کرنا۔ جی نہیں چاہتا گناہ سے بچنے کو، جی نہیں چاہتا حسینوں سے نظر ہٹانے کو مگر تم میری راہ میں تکلیف اٹھا لو۔ اگر لیلاؤں کو دیکھو گے تو پریشانی آئے گی اور یہ تکلیف راہِ لیلیٰ کی ہوگی لیکن مجھے خوش کرنے کے لیے تکلیف اُٹھاؤ گے تو یہ تکلیف راہِ مولیٰ میں داخل ہو گی۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ کس کی راہ میں تکلیف اٹھانے میں فائدہ ہے۔ تمہارے مزاج میں اگرچہ گناہ پسندی اور حسینوں کی طرف نظر بازی اور ذوقِ حسن بینی ہے لیکن ان سے بچنے میں تمہاری روح کو تو سکون ملتا ہے مگر تمہارا نفس’’ تل‘‘ کے لیے تلملاتا ہے اور’’ بل‘‘ کے لیے بلبلاتا ہے لہٰذا اس کو تلملانے دو اور بلبلانے دو، تکلیف اُٹھاؤ۔ گناہ چھوڑنے میں جو تکلیف ہو گی تمہارے نفس کو ہو گی، روح کو خوشی ہو گی اور تم روح سے زندہ ہو، نفس سے زندہ نہیں ہو۔ تمہاری گناہ کی جفا کاریاں اور بیوفائیاں سب روح کی بدولت ہیں۔ اگر میں تمہاری روح قبض کرلوں تو تم کوئی گناہ نہیں کر سکتے۔ تمہارا سببِ حیات روح ہے تو تم سببِ حیات کی کیوں فکر نہیں کرتے۔ جب تم اللہ کی نا فرمانی سے بچو گے تو کتنی حیات تم پر برس جائے گی۔

محبوبِ الٰہی بنانے والی دعا

تو مُتَطَھِّرِیْنَ بابِ تفعل سے نازل ہونے کا یہ علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا لیکن اس میں ایک علمِ عظیم اور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ تَوَّابِیْنَ اور مُتَطَھِّرِیْنَ کو محبوب رکھتے ہیں تو آپ کی رحمت متقاضی ہوئی کہ وضو کے آخر میں یہ دعا اپنی اُمت کو سکھا دی:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ

دیکھیے جو اسلوب نزولِ قرآنِ پاک کا ہے اسی اسلوب پر یہ دعا سکھائی گئی اور قرآنِ پاک میں جو دو لفظ تَوَّابِیْنَ اور مُتَطَھِّرِیْنَ نازل ہوئے وہ اس دعا میں آگئے۔ اس وقت قرآنِ پاک کی آیت اور ایک حدیث کا ربط پیش کر رہا ہوں اور یہ بھی اللہ کا انعام ہے ورنہ قرآنِ پاک کی آیت کہیں ہے اور حدیث پاک کہیں ہے۔ اگر اللہ کا کرم نہ ہو تو ذہن اس طرف نہیں جاسکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسانِ عظیم ہے، شفقت اور رحمت کا اُمت پر نزول ہے کہ وضو کے آخر میں یہ دعا سکھا دی کہ تم اب اپنے رب کے پاس کھڑے ہونے والے ہو اے میری اُمت کے لوگو! نماز میں جب تم اپنے مولیٰ کے سامنے کھڑے ہو تو یہ دعا پڑھ کر حاضری دو تاکہ حالتِ محبوبیت میں تمہاری پیشی ہو اور میری اُمت کا کوئی فرد اس دعا کی بدولت اس دعا کی برکت سے محروم نہ رہے، نہ توابیت سے محروم رہے، نہ متطہریت سے محروم رہے۔ دونوں نعمتوں سے مالا مال ہو جائے۔

آیتِ شریفہ کی تفسیر بعنوانِ دگر

آیت وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ باب تَفَعُّلْ سے نا زل ہونے کا راز

ﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ار شاد فرما تے ہیں اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ اس میں ایک علمی سوال ہو تا ہے کہ یُحِبُّ کو دو دفعہ کیوں نازل کیا جب کہ عر بی قاعدہ سے عطف ممکن تھا یعنی یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَالْمُتَطَہِّرِیْنَ نازل کر سکتے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے فَضْلًا وَّ رَحْمَۃً یُحِبُّ دوبار نازل کیا کہ اس میں ڈبل انعام ہے یعنی جس طرح سے میں تو بہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہوں اسی طرح  مُتَطَہِّرِیْنَ یعنی جو بہ تکلف گناہ سے بچتے ہیں، گناہ سے بچنے میں تکالیف اُٹھاتے ہیں، گناہ چھوڑنے کا دل پر غم برداشت کرتے ہیں، اپنی حرام خواہش کا خون کرنے کی مشقت جھیلتے ہیں ان کو بھی میں اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اس لیے یُحِبُّ مستقل نازل کیا ،عطف نہیں کیا تاکہ بندوں کو میرا محبوب بننے کی لالچ میں تکلیف اُٹھانا او ر میری محبت کے نام پر جان کی بازی لگا نا آ سان ہو جائے  ؎

جان دے دی میں نے ان کے نام پر

عشق  نے   سوچا   نہ   کچھ   انجام   پر

یہ میرا ہی شعر ہے۔ اﷲ کا محبوب بننا معمولی بات ہے؟ نعمت عظمیٰ ہے۔ اسی لیے مُتَطَہِّرِینْ  بابِ تَفَعُّلْ سے نازل کیا۔ اگرچہ یہ جملہ خبریہ ہے کہ جو گناہوں کو چھو ڑنے میں تکلیف اُٹھاتے ہیں ﷲ تعالیٰ ان کو محبوب بنا لیتا ہے لیکن اس میں جملہ انشائیہ ہے کہ اگر تم اﷲ کا محبوب بننا چاہتے ہو تو گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرو۔ اس جملہ خبریہ میں یہ انشائیہ ہے ورنہ بابِ تَفَعُّلْ کے بجائے کوئی دوسرا صیغہ بھی نازل کر سکتے تھے۔ یُحِبُّ الطَّاھِرِیْنَ فرما دیتے کہ میں پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہوں لیکن نہیں تَطَہُّر بابِ تَفَعُّلْ سے نازل کیا اور بابِ تفعل میں تکلف کی خاصیت ہے۔ ﷲ اکبر! کیا عظیم الشان کلام ہے جو ﷲ کا کلام ہونے کی دلیل ہے کیوں کہ  وہ اپنے بندوں کی طبیعت کو جانتے ہیں اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ بھلا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا۔ وہ جا نتے تھے کہ گناہوں سے بچنے میں بندوں کو تکلیف ہوگی اس لیے تُطَھُّر بابِ تَفَعُّلْ سے نازل کیا کہ پرانے پاپ چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا لیکن مُتَطَہِّرِیْن وہ بندے ہیں جو ﷲ کو راضی کرنے کے لیے گناہ کو چھوڑ کر دل کا خون کر لیتے ہیں اگرچہ گناہوں کی ان کو چاٹ پڑی ہو ئی ہے، بدمعاشیوں کی عادت پڑی ہوئی ہے لیکن پرانی سے پرانی عادت کو چھو ڑنے کے لیے مشقتیں اٹھا تے ہیں تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ جس کو گناہوں کی عادت پڑجاتی ہے اس سے پو چھو کہ گناہ چھوڑنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے، دل کے ٹکڑ ے ہو جاتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ دل کیا چیز ہے،بندہ ہے کیوں کہ بندے کا ہر جز بندہ ہے جب ہم ﷲ کے غلام ہیں تو ہمارا ہر جز ﷲ کا غلام ہے پھر دل ﷲ کی غلامی سے کیسے نکل سکتا ہے لہٰذا دل کو بہ تکلف زبردستی ﷲ کی فرماں بر داری پر مجبور کرتے ہیں۔ لہٰذا بابِ تفعل نازل کر کے ﷲ تعالیٰ بہ تکلف گناہوں سے بچنے کی تکلیف اُٹھانے والوں کی تعریف فرما رہے ہیں ۔

(احقر مر تب عرض کر تا ہے کہ حضرت والا کے خلیفہ مولانا یو نس پٹیل صاحب جو افریقہ سے آئے تھے اس تقریرکے وقت موجو د تھے، انہوں نے عرض کیا کہ متطہرین باب تفعل سے نازل ہونے کا یہ راز نہ انہوں نے کسی عالم سے سنا نہ کسی کتاب میں پڑھا ۔)

دوسرا نکتہ اس میں یہ ہے کہ وضو کے بعد کی جو مسنون دعا ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَ کہ اے ﷲ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں بنا دیجیے اور گناہوں کی نجاست سے پاک رہنے کی تکلیف اُٹھانے والوں اور گناہوں سے بچنے اور گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرنے والوں میں مجھے بنا دیجیے ۔ یہی طہارتِ حقیقیہ ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرما تے ہیں کہ طہارت کی حقیقت ہے طَہَارَۃُ الْاَسْرَارِ مِنْ دَنَسِ الْاَغْیَارِ یعنی غیر ﷲ کے میل کچیل سے دل کا پا ک ہوجانا۔ جب کسی حسین یا حسینہ، نمکین یا نمکینہ، دمکین یا دمکینہ، رنگین یا رنگینہ، معشوق یا معشوقہ کی محبت سے دل پاک ہوجائے تو سمجھ لو طہار تِ با طنی حاصل ہو گئی ۔ ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ وضو کے بعد جو یہ دعا تعلیم فرمائی گئی اس میں یہ حکمت ہے کہ بندہ ﷲ تعالیٰ سے درخواست کر رہا ہے کہ اے ﷲ!وضو کر کے میں نے جسم تو دھو لیا، ظاہری طہار ت تو حاصل کرلی یہی میرے اختیار میں تھا لیکن دل تک میرا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا آپ اپنی قدرتِ قاہرہ سے میرے دل کو پاک کر دیجیے یعنی گناہوں کے ذوق، گناہوں کے شوق، گناہوں کے طوق یعنی طوقِ لعنت سے مجھے پاک کردیجیے۔

اور ایک نکتہ یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی ﷲ علیہ وسلم کی رحمت نے جب دیکھا کہ ﷲ تعالیٰ تَوَّابِیْنَ کو اور مُتَطَہِّرِیْنَ کو محبوب رکھتے ہیں تو اُمّت کو یہ دعا سکھا دی کہ اے ﷲ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں اور بہ تکلف گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف اُٹھانے والوں میں اور غیر ﷲ کی محبت سے دل کو پاک کرنے کی مشقت جھیلنے والوں میں بنا دیجیے تا کہ اس دعا کی برکت سے اُمّت کو مذکورہ طہارتِ باطنی کی تو فیق ہو جائے اور اُمت محبوب ہو جائے۔

                                                                                                                                          (ماخوذ از: خزائن القرآن)

شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ

مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ
ترجمہ: اے انسان تجھ کو جو کوئی خوشحالی پیش آتی ہے وہ محض اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ہے  اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے۔

تم کو جتنی نیکیاں مل رہی ہیں خواہ حج ہو یا عمرہ ہو یا نماز ہو یا تلاوت ہو یہ سب اللہ کی عطا ہے اور تم نے جتنے گناہ اور بُرائیاں کی ہیں یہ تمہارے نفس کی بدمعاشی اور شرارت ہے کیوں کہ نفس اپنی ذات کے اعتبار سے امارہ بالسوء ہے اور الف لام السوء کا اسمِ جنس کا ہے یعنی وقتِ نزولِ قرآن سے لے کر گناہ کے جتنے انواع قیامت تک ایجاد ہوں گے سب اس السوء میں شامل ہیں کیوں کہ جنس وہ کلی ہے جو انواع مختلف الحقائق پر مشتمل ہوتی ہے اِلَّا مَا رَحِمَ  رَبِّیۡ مگر جس کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا سایہ عطا فرمائیں گے وہ نفس کے شر سے محفوظ ہو جائے گا۔ یہ ہمارا اور آپ کا استثناء نہیں ہے، یہ مخلوق کا استثناء نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا استثناء ہے۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنے سایۂ رحمت میں قبول فرمائیں اس کو اس کا نفس بھی خراب نہیں کر سکتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے استثناء کے سامنے نفس کی کیا حیثیت اور کیا حقیقت ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اِلَّا مَا رَحِمَ  رَبِّیۡ میں جو مَاہے یہ مصدریہ ظرفیہ زمانیہ ہے لہٰذا ترجمہ ہوا اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ یعنی جب تک تمہارے رب کی رحمت کا سایہ رہے گا تمہارا نفس بھی تم کو برباد نہیں کر سکتا۔

حقیقت میں سب کچھ اختیار آپ کا ہے، وجود آپ کا ہی ہے، ہمارا وجود فانی ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ اس کو وجود کہا جائے جیسے سورج ستاروں سے کہہ سکتا ہے کہ تمہارا وجود ہے مگر مثل عدم کے ہے۔ ہماری ہستیاں حق تعالیٰ کی ہستی کے فیضان سے ہیں، ہماری ذات خود سے قائم نہیں بلکہ ہم حق تعالیٰ کے کرم سے اور ان کے فیضانِ صفتِ ’’حی‘‘اور فیضانِ صفتِ ’’قیوم‘‘ سے قائم ہیں۔ جس دن صفتِ حی اور صفتِ قیوم کے ظہور کو اللہ تعالیٰ ہٹا دیں گے اس دن آسمان گر پڑے گا، سورج اور چاند گر پڑیں گے اور قیامت قائم ہو جائے گی۔ محدثین نے لکھا ہے کہ اللہ کے ان دو ناموں حی اور قیوم سے سارا عالم قائم ہے۔ تو مولانا کا اشارہ یہی ہے کہ ہمارا وجود کوئی حقیقت نہیں رکھتا، ہماری گویائی، بینائی، شنوائی سب آپ کی مدد سے ہے ورنہ حقیقتاً گویائی آپ کی گویائی ہے، شنوائی آپ کی شنوائی ہے، وجود آپ کا وجود ہے کہ ازل سے ابد تک ہے۔ آپ قدیم ہیں، غیر فانی ہیں، قادرِ مطلق ہیں، ہم حادث اور فانی ہیں، ضعیف ہیں لہٰذا ہمارا بولنا کوئی بولنا ہے، ہمارا سننا کوئی سننا ہے، ہمارا وجود کوئی وجود ہے کہ ابھی ہم بول رہے ہیں ، سن رہے ہیں اور ابھی روح نکل جائے تو خاموشی ہے، سماعت بند اور بینائی ختم۔ ہم بالکل لاشیء ہیں، آپ کے تابع ہیں اور انتہائی بے کس ہیں۔

یہاں ایک اِشکال ہوتا ہے کہ جب ہم بالکل بے کس ہیں تو جزا اور سزا کیوں ہے؟ جیسے ایک شخص ایسا ہی ایک مضمون پڑھ کر ایک باغ میں گھس گیا اور انگور کھانے لگا اور جب باغ کا مالک آیا تو اس نے پوچھا کہ میرے درخت کے انگور کیوں کھاتا ہے؟ اور یہ سیب کیوں کھا لیے؟ یہ سب میرے درخت کے ہیں تو اس نے کہا تم غلط کہتے ہو، زمین بھی خدا کی، آسمان بھی خدا کا، میں بھی خدا کا اور درخت بھی خدا کے، انگور بھی خدا کے اور سیب بھی خدا کا۔ خبردار جو مجھے کھانے سے منع کیا ۔تو باغ کے مالک  نے کہا: اچھی بات ہے۔ ابھی بتاتا ہوں اور ایک رسہ لے آیا اور اس سے اس کو خوب باندھ دیا اور ایک ڈنڈے سے اس کی پٹائی شروع کی تو وہ چلّانے لگا کہ کیوں مارتا ہے؟ تو مالکِ باغ نے جواب دیا کہ میں بھی خد اکا، تو بھی خدا کا، رسہ بھی خدا کا، اور ڈنڈا بھی خدا کا خبردار جو چلایا تو اس وقت۔ اس نے کہا:اختیار است اختیاراست ، میں توبہ کرتا ہوں، میں مجبور نہیں ہوں، مجھے اختیار ہے اختیار ہے ۔ ماہمہ لاشیم سے مولانا فرقۂ جبریہ کی تائید نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنی بے کسی اور عاجزی ظاہر کر کے حق تعالیٰ کی رحمت سے درخواست کررہے ہیں۔ دونوں میں فرق ہے اور مندرجہ بالا واقعہ بھی مثنوی کا ہے جس میں فرقۂ جبریہ کا رد ہے۔

اے خدا! ہم مجبور نہیں ہیں۔ یہ جو ہم نے اپنے کو آپ کے حوالے کیا ہے کہ ہم لاشئی ہیں اور آپ ہی سب کچھ ہیں، یہ آپ کی عظمتِ شان کا اعتراف اور اپنی حقارت و عاجزی و بے کسی پیش کی ہے تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھنے کی رغبت اور سجدوں کی لذت میں ترقی عطا فرمائیں۔ یہ دراصل لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ کا ترجمہ ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں حدیث نقل کی کہ ایک بار حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ  پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ھَلْ تَدْرِیْ مَا تَفْسِیْرُھَا یعنی اے عبداللہ ابن مسعود! اس لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ کے معنیٰ سمجھتے ہو؟ عرض کیا اَللہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ کا ترجمہ سن لو۔ سبحان اللہ! نبی کے الفاظ ہیں اور نبی کے الفاظِ نبوت کی شرح الفاظِ نبوت سے ہو رہی ہے۔ فرمایا کہ لَاحَوْلَ کے معنیٰ ہیں لَا حَوْلَ عَنْ مَّعْصِیَۃِ اللہِ اِلَّا بِعِصْمَۃِ اللہِ یعنی ہم اللہ کی معصیت سے نہیں بچ سکتے جب تک کہ خود اللہ حفاظت نہ فرمائے، اللہ کی حفاظت سے ہم گناہ سے بچ سکتے ہیں وَلَا قُوَّۃَ اَیْ وَ لَا طَاقَۃَ عَلٰی طَاعَۃِ اللہِ  اِلَّا بِعَوْنِ اللہِ ہم اللہ کی عبادت نہیں کر سکتے جب تک اللہ مدد نہ فرمائے۔

زور چھوڑ دو اور آہ و زاری اختیار کرو۔ اللہ کا رحم آئے گا آہ و زاری سے، یہ زور سے نہیں آئے گا کہ میں بڑا متقی ہوں، مقدس ہوں، میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا۔ اگر دعویٰ کرو گے تو رحمت سے محروم ہو جاؤ گے۔ لہٰذا زور چھوڑو اور زاری اختیار کرو تاکہ اللہ کا  اِلَّا مَا رَحِمَ  رَبِّیۡ مل جائے اور نفس کے شر سے خدا اپنی حفاظت میں قبول فرمائے۔

اِلَّا مَا رَحِمَ  رَبِّیۡ میں جو رحم ہے جس کے صدقہ میں نفوسِ انسانیہ، حرکاتِ نفسانیہ اور آثارِ شیطانیہ سے محفوظ رہتے ہیں وہ رحم اگر لینا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس آیت کی گویا تفسیر فرمائی اور اس رحم کو مانگنے کا جو مضمون عطا فرمایا وہ گویا حق تعالیٰ ہی نے عطا فرمایا ہے کیوں کہ نبی اللہ تعالیٰ کا سفیر ہوتا ہے۔ اس کا ہر مضمون خدائے تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ  فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ  عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا

جو ہمارا نبی تم کو عطا فرمائے اس کو لے لو یعنی جو حکم دے اس کو سر آنکھوں پر رکھو اور جس بات سے روک دے اس سے رُک جاؤ گویا اس آیت میں مذکورہ رحمت کو مانگنے کے لیے طریقہ اور مضمون اللہ تعالیٰ نے بزبانِ نبوت عطا فرمایا کہ اگر تم اِلَّا کے بعد  مَا رَحِمَ رَبِّیْ چاہتے ہو اور نفس کی بدمعاشیوں سے تحفظ چاہتے ہو تو یہ دعا مانگو:

یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّہٗ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ

اے زندہ حقیقی اور اے سنبھالنے والے میں آپ کی رحمت سے فریاد کرتا ہوں کہ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ  میری ہر حالت کو درست فرما دیجیے، میری زندگی کا کوئی شعبہ آپ کی نا فرمانی میں مبتلا نہ ہو، نہ کان گانا سنے، نہ آنکھ حسینوں کو دیکھے، نہ ناک خوشبوئے حرام سونگھے، نہ زبان غیبت کرے، نہ ہونٹ حرام بوسے لیں، غرض سر سے پیر تک ہر جز آپ کا فرماں بردار ہو اور کُلَّہٗ  تاکید ہے یعنی میری کوئی بھی حالت ایسی نہ رہنے پائے جو آپ کو پسند نہ ہو، میری ہر ناپسندیدہ حالت کو اپنی پسند کے مطابق ڈھال لیجیے، میری ہر ادائے بندگی کو وفائے بندگی سے مشرف فرما دیجیے کہ سر سے پیر تک کہیں بھی بے وفائی کا داغ میرے اوپر نہ لگنے پائے اور میں سراپا آپ کا ہو جاؤں ؎

نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا

اُنہیں  کا  اُنہیں  کا  ہوا  جارہا  ہوں

وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ اور اے اللہ! جس نفس کو آپ نے امارہ بالسوء فرمایا ہے مجھے پلک جھپکنے بھر کو اس دشمن کے سپرد نہ فرمائیے کیوں کہ دنیا میں سب سے بڑا دشمن یہی نفس امارہ بالسوء ہے کیوں کہ کسی دشمن کو ہر لمحہ ہر وقت یہ استطاعت نہیں کہ پلک جھپکنے بھر میں ہمیشہ ہی وہ اپنے مقابل کو ہلاک کردے لیکن یہ نفس ایسا دشمن ہے کہ ہمیشہ اس میں یہ استطاعت ہے کہ پلک جھپکنے میں یہ انسان کو ہلاک کرسکتا ہے۔  اسی لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے طَرْفَۃَ عَیْنٍ اس کے حوالہ ہونے سے پناہ مانگی ہے کہ ایک پل میں یہ مومن کو کافر، ولی کو فاسق اور انسان کو جانور سے بھی زیادہ ذلیل بنا دیتا ہے۔

اور فرقہ جبریہ کا عقیدہ جبر کہ انسان مجبور محض ہے جو موجب ہے کاہلی و جمود اور خمود کا یعنی بے عملی اور اعمال میں ٹھنڈا اور سست پڑ جانے کا۔ اے خدا! اس قسم کے جراثیم سے ہماری حفاظت فرمائیں، ایسی گمراہی کو ہمارے اندر نہ آنے دیجیے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اعمال میں بالکل سست اور ٹھنڈے ہو جائیں اور بے عملی اور گمراہی کا شکا ر ہو کر خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ہو جائیں۔ یہ عقیدۂ جبر یہ اتنا گمراہ کن ہے کہ انسان کو اعمال سے بے زار کر دیتا ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہم تو مجبور محض ہیں، مسجد جب جائیں گے جب اللہ پاک بلائیں گے لیکن اس سے کہو کہ روزی کمانے کے لیے  بازار کیوں جاتے ہو، گھر پر پڑے رہو جب اللہ میاں بلائیں تب جانا۔ اور کھانا کیوں ٹھونستے ہو، جب اللہ میاں کھلائیں کھا لینا۔ دین ہی کے کاموں میں مجبور ہو، ذرا دنیا کے کاموں میں بھی مجبور ہو جاؤ۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ چھوڑو نماز روزہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے لیکن اللہ تو رزاق بھی ہے پھر دوکان کیوں کھولتے ہو، سارا دن گھر میں پڑے رہو، رزق خود آجائے گا۔ وہاں تو بڑے چست ہو، یہ حیلہ بازیاں اور حیلہ سازیاں صرف دین ہی میں ہیں۔ دنیا کے کاموں میں کیوں حیلہ بازی نہیں کرتے ؎

اے  کہ تو دنیا  میں اتنا چُست ہے

دین میں  لیکن  تو  اتنا  سست  ہے

                                                                                                                                                        (ماخوذ از: خزائن القرآن)

شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here