Popular Posts

Friday, July 8, 2016

آخرت پر ایمان لانا

 

آخرت پر ایمان لانا یوم آخرت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا دن اور اس کی سختیاں حق ہیں ۔قبر میں منکر نکیر کا سوال جواب اور سب کافروں اور بعض گنہگار مومنوں کو قبر کا عذاب ہونا حق ہے۔ 

عذاب قبر

ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے اور مرنے کے بعد ہر انسان کواس کے عملوں کی جزا یا سزا ملے گی اس کے دو درجے ہیں۔ایک مرنے کے بعد سے قیامت تک اس کو عالم برزخ کہتے ہیں اور دوسرا درجہ قیامت سے لے کرابدالاباد تک ہے اس کوحشر و نشر کہتےہیں۔اس میں پوری پوری جزا و سزا ہوگی۔سب کفار اور بعض گنہگار مومنوں کو قبر کا عذاب ہوتا ہے۔ 

بعض گناہگار مومنون سے قبر کا عذاب بھی معاف ہو جاتا ہے یا وہ گناہ کے مطابق عذاب پا کر نجات پا جاتے ہیں ۔صالح مومن مرد و عورت قبر میں عیش و آرام سے رہتے ہیں۔وارثوں اور دیگر مسلمانوں کی خیر خیرات کرنے قران مجید و نوافل وغیرہ پڑھنے اور اس کا ایصال ثواب و دعا کرنے سے بھی میت کےعذاب قبر میں تخفیف ہو جاتی ہے مگر کافر کو مرنے کے بعد کوئی خیرات یا دعا وغیرہ نفع نہیں دیتی خواہ کوئی مومن ہی ایسا کرے۔ اسی طرح اگر کوئی کافرکسی کافر یا مومن مردے کے لئے دعا کرے یا صدقہ دے تو ہرگز اس کو نفع نہ دے گا۔ ثواب پہچانے کے لئے کسی خاص چیز یا کسی خاص وقت یا خاص طریقہ کی پابندی شرع شریف میں نہیں ہے۔ایسی پابندی سے بچنا چاہئے بلکہ جس وقت جو کچھ میسر ہووہ مالی یا بدنی ثواب کا کام ادا کر کے اس کا ثواب بخش دیا جائے۔ایصال ثواب کا کام رسم کی پابندی، دکھاوے اور نام و شہرت کے لئے نہ کرے اور بلا ضرورت ادھار اور قرض لے کر رسوم کی پابندی کرنا اور بھی گناہ ہے کسی ایسی مصلحت سے وقت وغیرہ کی پابندی کی جائے جو شرعاً جائز ہو اور اس کو شرع کی طرف سے لازمی نہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہیں مگر آج کل جاہلوں کی رسمی پابندی کےخوف سے بچنا ضروری ہےورنہ وہ دلیل بنائیں گے۔
قبر میں مُردے سے سوال و جواب کی تفصیل یہ ہے کہ جب مُردے کو اس کے خویش و اقارب قبر میں رکھ کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں۔ جو اس کو بیٹھا کر پوچھتے ہیں 
مَن رَّبُّکَ (تیرا رب کون ہے) 
مومن بندہ جواب دیتا ہے 
رَبِّیَ اللّٰہ (میرا رب اللّٰہ تعالی ہے) 
مَن نَّبِیُّکَ ( تیرا نبی کون ہے) 
مومن بندہ جواب دیتا ہے نَبِیِّی مُحَمَّد ( میرے نبی محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) ہیں) 
مَا دِینُکَ ( تیرا دین کیا ہے) 
مومن بندہ جواب دیتا ہے 
دِینِیَ الاِ سلاَمُ ( میرا دین اسلام ہے) 
بعض روایات میں دوسرا سوال اس طرح ہے 
مَا کُنتَ تَقُوُلُ فِی ھٰذَا الرُّجُلِ ( تو اس آدمی (محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کے بارے میں کیا کہتا تھا) 
مومن بندہ جواب دیتا ہے 
ھُوَ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (وہ اللّٰہ کے رسول (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) ہیں) 
وہ فرشتے کہیں گے تجھے کس نے بتایا وہ کہے گا میں نے اللّٰہ کی کتابیں پڑھیں، اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ پس اس کے لئے قبر میں جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جائے گا۔ جس سے جنت کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور خوشبو اس کے پاس آتی رہے گی اور اس کی قبر کشادہ اور نورانی کر دی جائے گی ۔ اگر وہ بندہ کافر یا منافق ہوتا ہے تو سوالوں کے جواب میں کہتا ہے ھَاہ ھَا لَا اَدرِی ( افسوس میں کچھ نہیں جانتا) 
وہ فرشتے اس کو لوہے کے گرزوں( ہتھوڑوں) سے ایسے مارتے ہیں کہ سوائے جن و انس کے تمام مخلوق اس کی چیخیں سنتی ہے اور قبر اُس کو اِس قدر دباتی ہے کہ اس کی پسلیاں اِدھر کی اُدہر اور اُدہر کی اِدہر نکل جاتی ہیں پھر دوزخ کی کھڑکی اس پر کھول دی جاتی ہے۔ اور وہ حشر تک اس عذاب میں مبتلا رہتا ہے، البتہ بعض مومنوں کو بقدر گناہ عذاب پورا ہو کر اس سے پہلے بھی اس عذاب سے رہائی ہو جاتی ہے اور کبھی محض اللّٰہ پاک کے فضل و کرم سے اور کبھی دنیا کے لوگوں کی دعا اور صدقہ و خیرات وغیرہ کے ایصال ثواب سے بھی عذاب سے رہائی حاصل ہو جاتی ہے۔ جمعہ کے روز کی برکت سے بھی ہر گناہگار مومن کو اس روز عذاب سے رہائی ہو جاتی ہے۔ ضغطہ قبر ( قبر کی تنگی و گھبراہٹ) نیک بندوں کو بھی ہوتا ہے جو کسی گناہ کے سبب یا کسی نعمت کا شکر ادا نہ کرنے کے سبب ذرا سی دیر کے لئے ہوتا ہے پھر اّسی وقت دور ہو جاتا ہے، بعض کو اللّٰہ تعالٰی کی رحمت سے نہیں بھی ہوتا۔ مرنے کے بعد ہر روز صبح اور شام کے وقت ہر مُردے کو اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے جنتی کو جنت دکھا کر خوشخبری دیتے ہیں اور دوزخی کو دوزخ دکھا کر اس کی حسرت بڑھاتے ہیں

جو لوگ قبر میں دفن نہیں کئے جاتے بلکہ جلا دئے جاتے ہیں یا پانی میں ڈوب کر مر جاتے یا جانور کھا جاتے ہیں وغیرہ، ان کو بھی عذاب قبر ہوتا ہے، قبر سے مراد وہ گڑھا نہیں جو زمین کھود کر میت کو اس میں دفن کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ مقام ہے جہاں مرنے کے بعد برزخ میں روح کو رکھا جاتا ہے۔ نیکوں کی روح کے مقام کو عالمِ بالا یعنی علیین کہتے ہیں اور بروں کے مقام کو عالمِ پست یعنی سجین کہتے ہیں اور وہ عذاب سانپ بچھو لوہے کی سلاخیں وغیرہ سے جیسی اس عالم کے مناسب ہوں روح کو دیا جاتا ہے اور جسم کے ساتھ روح کا ایک ادنیٰ سا تعلق باقی رہنے کی وجہ سے زمینی گڑھے کو بھی قبر کہہ دیتے ہیں اور بعض اوقات اس قبر میں رکھے ہوئےجسم پر بھی اس عذاب و ثواب کے اثرات مرتب ہو کر اہلِ دنیا کی عبرت کے لئے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ 

علماء نے مسلمان کے گناہ معاف ہونے کے دس سبب لکھے ہیں : 
١. توبہ، 
٢. استغفار، 
٣. نیک اعمال، 
٤. دنیا میں کسی بلا میں گرفتار ہونا، 
٥. ضغطہ قبر، 
٦. مسلمانوں کی دعا کی برکت، 
٧. مسلمانوں کا صدقہ جو اس کی طرف سے دیں، 
٨. قیامت کی سختی، 
٩. نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت، 
١٠. محض رحمت الہیٰ، 
جو لوگ قبر کے عذاب اور منکر نکیر کے سوال و جواب سے محفوظ رہیں گے یہ ہیں، 
١. غازی یا شہید، 
۔٢. جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن مرنے وال، 
تناسخ (آواگون) مسلمانوں کے عقیدے کے بلکل خلاف ہے یہ ہندوئوں اور بعض کافر فلسفیوں کا عقیدہ ہے جو غلط ہےانبیاء علیہم السلام اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اپنی قبروں میں اپنے اجسام کے ساتھ زندہ ہیں۔ اور اس زندگی کی کیفیت اللّٰہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ شہدا بھی زندہ ہیں، لیکن انبیاء علیہم السلام کی زندگی سب سے قوی تر ہے، صدیقین و دیگراولیاء اللّٰہ و حفاظ بھی زندہ ہیں۔ اولیاء اللّٰہ اور شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں داخل کر دی جاتی ہیں وہ بہیشت میں پھرتی اور اس کی نہروں کا پانی پیتی ہیں۔ ان کی ارواح کو اجازت ہوتی ہے کہ جہاں چاہیں پھریں، کاملین کی ارواح کبھی کبھی اللّٰہ تعالٰی کی اجازت سے اس جسمانی دنیا میں ظاہر ہو کر تصرف بھی کرتی ہیں اور اپنے دوستوں کی مدد کرتی اور دشمنوں کو سزا دیتی ہیں
قیامت کا دن اس دن کو کہتے ہیں جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے، قیامت کا آنا برحق ہے۔ اس کا ٹھیک وقت اللّٰہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا اتنا معلوم ہے کہ جمعہ کا دن اور محرم کی دسویں تاریخ ہو گی۔ اس کی جو نشانیاں حضورِ انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرمائیں ہیں، سب حق ہیں اور وہ دو قسم پر ہیں 
١. علاماتِ صغریٰ، 
٢. علاماتِ کبریٰ، 

علامات صغریٰ

جو حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال مبارک سے لے کے مہدی علیہ السلام کے ظہور تک ظاہر ہوں گی، بہت زیادہ ہیں ان میں سے کچھ مختصراً یہ ہیں ۔ 
١. حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اس دارِ فانی سے پردہ فرمانا، 
٢. بیت المقدس کا فتح ہونا، 
٣. ایک عام وبا کا ہونا( یہ دو نشانیاں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں پوری ہوئی)،
٤. مال کا زیادہ ہونا( یہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں ہوا)، 
٥. ایک فتنہ جو عرب کے گھر گھر میں داخل ہو گا(یہ شہادتِ عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا سبب تھا)، 
٦. مسلمانوں اور نصاریٰ میں صلح ہو گی، پھر نصاریٰ غدر کریں گے، (یہ علامات آئندہ ہونے والی ہے)، 
٧. علم اٹھ جائے گا جہل بڑھ جائے گا، 
٨. زنا اور شراب خوری کی بہت ہی کثرت ہو گی، 
٩. عورتیں زیادہ اور مرد کم ہوں گے( یہ غالباً حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانے میں جہاد میں مردوں کے بکثرت شہید ہونے سے ہو گا)، 
١٠. جھوٹ بولنا کثرت سے ہو گا، 
١١. بڑے بڑے کام نااہلوں کے سپرد ہوں گے، بےعلم اور کم علم لوگ پیشوا بن جائیں گے، کم درجہ کے لوگ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنائیں گے، 
١٢. لوگ مصیبتوں کی وجہ سے موت کی آرزو کریں گے، 
١٣. سردار لوگ مالِ غنیمت کو اپنا حصہ سمجھیں گے، 
١٤. امانت میں خیانت بڑھ جائے گی، 
١٥. زکوة دینے کو جرمانہ سمجھیں گے، 
١٦. علم دنیا حاصل کرنے کے لئے پڑھیں گے، 
١٧. لوگ اپنے ماں باپ کی نافرمانی اور ان پر سختیاں کریں گے، 
١٨. مرد عورت کا فرنمابردار اور ماں باپ کا نافرمان ہو گا اور دوست کو نزدیک اور باپ کو دور کرے گا، 
١٩. مسجدوں میں لوگ شور کریں گے، 
٢٠. فاسق لوگ قوم کےسردار ہوں گے اور رذیل لوگ قوم کے ضامن ہوں گے، ٢١. بدی کے خوف سے شریر آدمی کی تعظیم کی جائے گی، 
٢٢. باجےعلانیہ ہوں گے، گانے بجانے اور ناچ رنگ کی زیادتی ہو جائےگی، ٢٣. امت کے پچھلے لوگ پہلے بزرگوں پر لعنت کریں گے، 
٢٤. سرخ آندھی، 
٢٥. زلزلے، 
٢٦. زمین میں دھنسنا، 
٢٧. صورتیں بدل جانا، 
٢٨. پتھر برسنا وغیرہ دیگر علامات ظاہر ہوں گی اور اس طرح پے درپےآئیں گی، جس طرح تاگا ٹوٹ کر تسبیح کے دانے گرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اچھے کام اٹھتے جائیں گے اور برے کاموں اور گناہوں کی کثرت ہوتی جائے گی، 
٢٩. نصاریٰ تمام ملکوں پر چھا جائیں گے، 
٣٠. مسلمانوں میں بڑی ہل چل مچ جائے گی اور گبھرا کر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تلاش میں مدینہ منورہ میں آئیں گے اور امام مہدی علیہ السلام مکہ چلے جائیں گے۔ بعض اور علامات بھی ہوں گی مثلاً 
٣١. درندے جانور آدمی سے کلام کریں گے، 
٣٢. کوڑے پر ڈالی ہوئی جوتی کا تسمہ کلام کرے گا اور آدمی کو اس کے گھر کے بھید بتائے گا۔ بلکہ خود انسان کی ران اُسے خبر دے گی، 
٣٣. وقت میں برکت نہ ہو گی، سال مہینے کی مانند اور مہینہ ہفتہ کی اور ہفتہ دن کی مانند ہو گا اور دن ایسا ہو جائے گا جیسا کہ کسی چیز کو آگ لگی اور جلدی بھڑک کر ختم ہو گئی، 
٣٤. ملک عرب میں کھیتی اور باغ اور نہریں ہو جائیں گی، مال کی کثرت ہو گی، 
٣٥. نہر فرات اپنے خزانے کھول دے گی کہ وہ سونے کے پہاڑ ہوں گے، 
٣٦. اس وقت تک تیس بڑے دجال ہوں گے وہ سب نبوت کا دعویٰ کریں گے حالانکہ نبوت حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ہے، ان میں سے بعض گزر چکےہیں مثلاً مسیلمہ کذاب، طلحہ بن خولید، اسودعنسی، سجاح عورت جو کہ بعد میں اسلام لے آئی وغیرہم اور جو باقی ہیں ضرور ہوں گے اور بھی بہت سی علامات حدیثوں میں آئی ہیں
علامات کبٰریٰ

حضرت امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کے ظہور سے نفحِ صور تک مندرجہ ذیل علامتیں ظاہر ہوں گی۔ 
١.  حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔ مہدی کے معنی ہیں ہدایت پایا ہوا۔ امام مہدی موعود یعنی جن کا علاماتِ قیامت میں ذکر ہے اور قربِ قیامت میں جن کے ظہور کا وعدہ ہےایک خاص شخص ہےجو دجال موعود( یعنی جس دجال کا امام مہدی سے پہلے ہونے کا وعدہ ہے) کے وقت میں ظاہر ہوں گے اور دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ نصاریٰ سے جنگ کر کے فتحیاب ہوں گے، آپ کا نام محمد والد کا نام عبداللّٰہ والدہ کا نام آمنہ ہو گا آپ حضرت امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کی اولاد سے ہوں گےمدینے کے رہنے والے ہوں گے قد مائل بہ درزی، قوی الجثہ، رنگ سفید سرخی مائل چہرہ کشادہ ، ناک باریک و بلند زبان میں قدرے لکنت، جب کلام کرنے میں تنگ ہوں گے تب زانو پر ہاتھ ماریں گے، آپ کا علم لدنی ہو گا، چالیس برس کی عمر میں ظاہر ہوں گے اس کے بعد سات یا آٹھ برس تک زندہ رہیں گےجب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئیں گے لوگ ان کوپہچان کر ان سے بیت کریں گے اور اپنا بادشاہ بنا ئیں گےاس وقت غیب سے یہ آواز آئے گی 
ھَذا خَلِیفَہّ اللّٰہِ المَھدِی فَاستَمِعُو  وَ اطِیعُوا " یہ اللّٰہ تعالی کا خلیفہ مہدی ہے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو" 
٢.  اس سال ماہ رمضان میں تیرہوں تاریخ کو چاند اور ستائسویں تاریخ کوسورج گرہن ہو گا ۔ 
٣.  امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں اسلام خوب پھیلے گا امام امہدی سنت نبوی پر عمل کریں گے عرب کی فوج ان کی مدد کو جمع ہو گی کعبہ کے دروازہ کے آگے جو خزانہ مدفون ہے جس کو تاج الکعبہ کہتے ہیں نکالے گےاور مسلمانوں میں تقسیم فرمائیں گے، دمشق کے قریب نصاریٰ کے لشکر جرار کےساتھ جنگ ہو گی مسلمانوں کے تین فریق ہوں گے ایک وہ جو نصاری کے خوف سے بھاگ جائیں گے ان کی توبہ کبھی قبول نہ ہو گی اور وہ حالت کفر میں مر جائیں گے ایک فریق شہید ہو جائے گا اور افضل شہدا کا مرتبہ پائے گا تیسرا فریق فتح ۔پائے گا اور ہمیشہ فتنے سے امن میں رہے گا ۔ 
٤.  دجال موعود ایک خاص شخص ہے یہ قوم یہود سے ہو گا اور اس کا لقب مسیح ہو گا داہنی آنکھ اندھی ہو گی اور اس میں انگور کے دانے کی مانند ناخونہ ہوگا اس کے بال حبشیوں کے بالوں کی مانند نہایت پیچیدہ ہوں گے، ایک بڑا گدھا اس کی سواری کے لئے ہو گا اور اس کے ماتھے کے عین بیچ میں کافر اس طرح لکھا ہو گا" ک ف ر" جس کو ہر ذی شعور پڑھ لے گا، اول وہ ملک شام و عراق کے درمیان ظاہر ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر اسفہان میں آئےگا اور ستر ہزار یہودی اس کے تابی ہوں گے وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کے ساتھ آگ ہوگی جس کو وہ دوزخ کہے گا اور ایک باغ ہو گا جس کا نام وہ بہشت رکھے گا دراصل اس کی دوزخ جنت کی تاثیر رکھتی ہو گی اور اس کی جنت دوزخ کے اثر والی ہو گی، زمین میں دائیں بائیں فساد ڈالتا پھرے گا اور بادل کی طرح پھیل جائے گا، اس سے پہلے سخت قحط ہو گا وہ عجیب عجیب کرشمے دکھائے گا، جو استدراج کے حکم میں ہوں گے، مسلمانوں کو ان کی تسبیح و تہلیل روٹی اور پانی کا کام دیگی پھر مکہ کی طرف آئے گا، لیکن فرشتوں کی حفاظت کے سبب مکہ معظمہ میں داخل نہ ہو سکے گا، پھر مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا اور اُحد پہاڑ کے پاس ڈیرہ لگائے گا مدینہ منورہ کے اس وقت سات دروازے ہوں گے ہر دروازے پر دو محافظ فرشتے ہوں گے اس لئے دجال اندر نہ جاسکے گا۔ پھر دمشق کی طرف روانہ ہو گا جہاں امام مہدی ہوں گے وہ امام مہدی سے مقابلہ کرے گا، امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ لشکر درست کر کے جنگ کےلئے تیار ہوں ۔گے 
٥.  اتنے میں عصر کا وقت دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید منارہ پرزرد لباس پہنے ہوئے دو فرشتوں کے بازئوں پر ہاتھ دہرے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے، جب سر نیچا کریں گے تو پسینے سے قطرے ٹپکیں گے، جب سر اٹھائیں گے تو موتیوں کے دانوں کی مانند قطرے گریں گے پھر امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ سے ملاقات کریں گے اور ایک دوسرے کو امامت کے لئےکہیں گےغالباً پہلےامام مہدی رضی اللّٰہ عنہ امام ہو کر نمازپڑھائیں گے تاکہ تکریم امت ہو، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام امامت فرمائیں گے، کیونکہ آپ نبی ہیں حضرت عیسی علیہ السلام دجال کے قتل کے لئے آمادہ ہوں گے آپ کے دم کی یہ تاثیر ہو گی کہ جس کافر کو وہ ہوا لگ جائے گی وہ مر جائےگا اور جہاں تک ان کی نظر جائے گی وہ ہوا بھی وہاں تک جائے گی، آپ دجال کا تعاقب کریں گے باب لُد( ملک شام کا پہاڑ یا گائوں) کے پاس اسے گھیر لیں گےاور نیزے سے قتل کر کے اس کا خون لوگوں کو دکھائیں گے اگر اس کے قتل میں حضرت عیسیٰ جلدی نہ کریں تو وہ کافر نمک کی طرخ خود بخود پگھل جائے پھر لشکرِاسلام دجال کے لشکر کو کہ اکثر یہودی ہوں گے بکثرت قتل کرے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام حکم دیں گے کہ خنزیر قتل کئے جائیں اور صلیب کہ جس کو نصاریٰ پوجتے ہیں توڑ دی جائے اور کسی کافر سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ وہ اسلام لائے پس اس وقت تمام دنیا میں دین اسلام پھیل جائے گا کفر مٹ جائے گا خوب انصاف راج ہو گاجور وظلم دنیا سے دور ہو جائے گا۔ امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت سات یا آٹھ یا نو برس ہو گی ( باخلافِ روایات) پھر آپ دنیا سےتشریف لے جائیں گے خضرت عیسی علیہ اسلام اور مسلمان ان کے ۔جنازے کی نماز پڑھ کر دفن کریں گے

٦.  اس کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اختیار میں ہو گا اور دنیا اچھی حالت پر ہو گی پھر یکایک وحی الہی سے حضرت عیسی علیہ السلام لوگوں کو کوہ طور کی طرف لے جائیں گے اور قوم یاجوج ماجوج کا خروج ہو گا جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں، ذولقرنین بادشاہ نے ان کے راستے کو جو دو پہاڑوں کے درہ میں تھا مستحکم بند کر دیا تھا، اخیر زمانہ میں اسوقت وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم پھیل جائے گی، کوئی ان سے مقابلہ نہ کر سکے گا آخرکار آسمانی بلا سے خود بخود مر جائیں گے پھر زمین میں خیر برکت ظاہر ہو گی لوگوں کو مال کی کچھ پرواہ نہ ہو گی ایک سجدہ کرنا دنیا و مافیا سے اچھا جانیں گے یہ خیر و برکت سات برس تک رہے گی، اس عرصہ میں خضرت عیسی علیہ السالم نکاح بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہو گی پھر دنیا سے انتقال فرمائیں گے اور آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے روزہ مبارک میں دفن ہوں گے۔ اور قیامت میں وہیں سے اٹھیں گے 
٧.  حضرت عیسیٰ علیہ السالم ایک شخص کو خلیفہ مقرر فرمائیں گے وہ اچھی طرح عدل کے ساتھ حکومت کرے گا لیکن شر و فساد و کفر و الحاد پھیل جائے گا اسی طرح دو تین شخص یکے بعد دیگرے حاکم ہوں گے، لیکن کفر و الحاد بڑھتا جائے گا پھر اس زمانے میں ایک مکان مشرق میں اور ایک مکان مغرب میں دھنس جائے گا جہاں منکریںِ تقدیر رہتے ہوں گے ۔ 
٨.انہی دنوں آسمان سے ایک دھواں نمودار ہو گا کہاس سے مومنین کو زکام سا معلوم ہو گا اور کافروں کو نہایت تکلیف ہو گی 
٩.  انہی دنوں ماہ ذلحجہ میں قربانی (١٠ ذی الحجہ)کےدن کے بعد کی رات بہت دراز ہو گییہاں تک کہ بچے چلا اٹھے گے اور مسافر تنگ دل ہوں جائیں گے اور مویشی چراہ گاہ میں جانے کے لئے بہت شور کریں گے لیکن صبح نہ ہو گی یہاں تک کہلوگ ڈر کر کے روئیں چلائیں گے اور توبہ توبہ پکاریں گے اس رات کی درازیتین یا چار رات کے برابر ہو جائے گی ۔ 
١٠.  پھر قرصِ آفتابتھوڑے نور کے ساتھ جیسا کہ گہن کے وقت ہوتا ہے مغرب کی جانب سے طلوع کرے گا اور اتنا بلند ہو کر جتنا کہ چاشت کے وقت ہوتا ہےپھر غروب ہو جائے گا اور حسب عادت مشرق سے طلوع کرے گا اس کے بعد کسی کی توبہ قبول نہ ہو گی ۔ 
١١.  اس کے دوسرے روز مکہ کا پہاڑ صفا (نام) زلزلہ آ کر شک ہو جائے گا اور ایک جانور جس کی عجیبصورت ہو گیباہر آئے گا اور لوگوں سے کلام کرے گا اس کو دابتہ الارض کہتے ہیں، اس کے ایک ہاتھ میں عسائے موسیٰ اور دوسرے میں مُہر سلیمانی ہو گی، عصا موسیٰ سے ہر مسلمان کی پیشانی پر ایک نورانی خط بنائے گا اور مہر سے ہر کافر کیپیشانی پر ایک سخت سیاہ دھبہ لگائے گا، اس وقت تمام مسلمان و کافر کھلم کھلا پہچانےجائیں گے اور یہ علامت کبھی نہ بدلے گی ، کافر پھر ہرگز ایماننہ لائے گا اور مسلمان ہمیشہ ایمان پر رہے گا، اس کے سو برس بعد قیامت آئے گی 
١٢.  پس دابتہ الارضکے نکلنے کے کچھ عرصہ بعد یعنی جب قیامت میں چالیس برس رہ جائیں گے تو شام کی طرف سے ایک خوشبودار ٹھنڈی ہوا( ہوائے سرد)چلے گی جو بغلوں کے نیچے سے گزرے گی جسکے اثر سے کوئی اہل ایمان اور اہل خیر زمیں پر نہ رہے گا سب مر جائیں گے حتیٰ کہ اگر کوئی مومن پہاڑ کے غار میں چھپا ہو گا تو یہ ہوا پہاڑ کے غار میں پہنچ کر اس کو مارے گی پھر سب کافر ہی کافر رہ جائیں گے 
١٣.  پھر حبشہ کے کفار کا غلبہ ہو گا وہ خانہ کعبہ کو گرا دیں گے اور اس کے نیچے سے خزانے نکالیں گے ظلم و فساد پھیلے گا جانوروں کی طرح لوگ کوچہ و بازار میں ماں بہن سے جماع کریں گے، قران کاغذوں سے اٹھ جائے گا شہر اجڑ جائیں گے، قحط و وبا کا ظہور ہو گا اس کے بعد ملک شام میں کچھ ارزانی ہو گی اور کچھ امن ہو گا دوسری جگہ کے لوگ وہاں آئیں گے جس سے وہاں لوگوں کی کثرت ہو گی ۔ 
١٤.  کچھ مدت کے بعد جنوب کی طرف سے ایک آگ نمودار ہو گی اور لوگوں کو گھیر کر ملک شام کی طرف لائے گی جہاں مرنے کے بعد حشر ہو گا

٥.  اس کے بعد پانچ برس تک پھرلوگوں کو خوب عیش و آرام میسر ہو گا۔ لوگ شیطان کے بہکانے سے بتوں کی عبادت کریں گے، ان کو روزی کی فراخی حاصل ہو گی اور زمین پر کوئی اللّٰہ اللّٰہ کہنے والا نہ باقی رہے گا تب صور پھونکا جائے گا اور قائم ہو جائے گی۔ لوگ اس وقت عیش و آرام میں ہوں گے اور مختلف کاموں میں مصروف ہوں گے کہ یکایک جمعہ کے روز جبکہ محرم کا عاشروہ ہو گا علیٰ الصباح آواز آئے گی لوگ حیران ہوں گے کہ یہ کیا ہے وہ آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی جائے گی یہاں تک کہ کڑک اور رعد کے برابر ہو گی تب لوگ مرنے شروع ہوں گے۔ صور ایک چیز بگل کی مانند ہے حضرت اسرافیل علیہ السلام اس کو منھ سے بجائیں گے اس کی آواز کی شدت سے ہر چیز فنا ہو جائے گی جاندار مر جائیں گے درخت اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، آسمان کے تارے چاند سورج ٹوٹ کر گر پڑیں گے، آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا زمین معدوم ہو جائے گی۔ بعض علمائ نے کہا ہے کہ فنائےکلی سے یہ آٹھ چیزیں مستثنیٰ ہیں ان کو فنا نہ ہو گی 
 ١.  عرش، 
٢.  کرسی، 
٣.  لوح، 
٤.  قلم، 
٥.  بہیشت، 
 ٦.  دوزخ، 
٧.  صور، 
٨.  ارواح، 

لیکن ارواح پر ایک قسم کی بیہوشی طاری ہو گی اور بعض علماء فرماتے ہیں سوائے اللّٰہ تعالی کے ہر چیز فنا ہو جائے گی اور ان آٹھ مذکورہ چیزوں میں بھی ایک دم بھر کے لئےفنا آئے گی، اس وقت اللّٰہ تعالی فرمائے گا 
لِمَنِ المُلکُ الیَوم "آج کس کا ملک ہے" 
جب کوئی جواب نہ دے گا تو اللّٰہ تعالٰی آپ ہی فرمائے گا 
ِللّٰہِ الَواحِدِ القَھَّارِ "ملک اللّٰہ واحد و قہار ہی کا ہے۔" 
یہ پہلے نفخے کا بیان تھا۔ چالیس سال کے بعد پھر صور پھونکا جائے گا اس سے ہر چیز دوبارہ ہو جائے گی، اس کی کیفیت ولبعث بعد الموت میں درج ہے۔

٦. قدر خیر و شر

قدر خیر و شر کے اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ہونےکا مطلب یہ ہے کہ بندے کے افعال خواہ نیک ہوں یا بد سب کا خالق اللّٰہ تعالٰی ہے اور بندے فاعل و کاسب ہیں اور کسب پر جزا اور سزا مرتب ہے، نیکی کے کسب سے اللّٰہ پاک راضی ہے اور بدی کی کسب سے ناراض ہوتا ہے، تقدیر کا خلاصہِ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ بَھلا یا برا ہوتا ہے اللّٰہ تعالٰی کےعلم میں اس کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ کوئی اچھی یا بری بات اللّٰہ تعالٰی کے علم اور اندازے سے باہر نہیں اور اس کے ہونے سے پہلے بلکہ ہر چیز کے پیدا کرنے سے پہلے اللّٰہ تعالٰی سب کچھ ہمیشہ سے جانتا ہےاور اپنی علم اور اندازے کے موافق اس کو پیدا کرتا ہے پس بندوں کے سب افعال اللّٰہ تعالٰی کے ارادے اور مشیت و قضا و قدر سے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن بندے کو اس کے افعال میں اختیار دیا ہے، پس جب بندہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو ایک قسم کی قدرت اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے عنایت ہوتی ہے۔ پس اگر وہ بندہ اس قدرت کو نیک کام پر لگا دے تب بھی اس کو اختیار ہےاور اس اختیار کے نیک کام میں استعمال کرنے کی اس کو جزا یعنی اچھا بدلہ ملے گا اور اگر برے کام میں خرچ کرے تب بھی اس کو اختیار ہےاور اس اختیار کو برے کام میں استعمال کرنے کی سزا یعنی برا بدلہ ملے گا، اسی قدرت و اختیار پر شرعی احکامات کا دارومدار ہے۔ تقدیر یعنی قدر خیر و شر پر ایمان لانا تواتر کی حد کو پہچ گیا ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔ لیکن اس مسئلہ میں زیادہ بحث مباحثہ نہ کرے، کیونکہ گمراہی کا خطرہ ہے اور کچھ فاعدہ نہیں، اسی لئے ۔نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے تاکید کے ساتھ اس بحث سے منع فرمایا ہے اگرچہ اللّٰہ تعالٰی نیکی و بدی کا خالق ہے مگر صرف خالقِ خیر( یزدان) یا صرف خالقِ شر (اہرمن) کہنا کفر ہے اور مجوس کا عقیدہ ہے۔ وہ اس طرح دو خدا مانتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے 
خَالِقُ الخَیرِ وَ الشَّر یَا خَالِق کُلِّ شَئی 
ہر چیز کا خالق و متصرف اللّٰہ کو جانے، ستاروں و دیگر زمینی وآسمانی علامات کو کسی چیز کے ہونے میں موثرِ حقیقی نہ جانے کہ یہ شرک ہے، اسباب کے درجہ میں جاننا جائز ہے، یعنی مجازاً اس فعل کو اس سبب کی طرف منسوب کرنا اور یہ سمجھنا کہ یہ تاثیرات ان چیزوں میں اللّٰہ تعالٰی نے رکھی ہیں اور اسی کے ارادہ و اختیار سے ان کی تاثیرات ظاہر ہوتی ہیں جائز ہے 

قضا کی تین قسمیں 
قضا کی تین قسمیں ہوتی ہیں 
١. مبرمِ حقیقی یعنی جو علم الٰہی میں کسی شے پر معلق نہیں 
٢. معلق محض جس کا کسی چیز پر معلق ہونا فرشتوں کے صحیفوں میں ظاہر فرما دیا گیا ہے 
٣. معلق جو مبرم 

٧. بعث بعد موت

ولبعث بعد الموت کا مطلب ہے کہ مرنے کے بعد سب کو قیامت کے دن دوبارا زندہ کر کےاٹھایا جائے گا- پس اول صور پھونکنے کے بعد جب چالیس برس کا عرصہ گزر جائے گا اور اتنی مدت تک احدیتِ صرفہ کا ظہور ہو چکے گا تو اللّٰہ تعالٰی اسرافیل علیہ الاسلام کو زندہ کرے گا پھر وہ صور پھونکیں گے جس کو نقحہ ثانی کہتے ہیں، جس سے اوّل عرش کو اٹھانے والے فرشتے پھر جبرائل و میکائل اور عزرائیل علیہم الاسلام اٹھیں گے پھر نئی زمین و آسمان اور چاند وسورج موجود ہوں گے، پھر ایک مینہ برسے گا جس سے سبزہ کی طرح ہر روح والی چیز جسم کے ساتھ زندہ ہو جائے گی - اس دوبارہ پیدا کرنے اور حساب و کتاب کر کے جزا و سزا کےطور پر جنت و دوزخ میں بیجھنے کو شرع میں بعث و نشر اور حشر و نشر کہتےہیں اور اس دن کو یوم الحشر، یوم الجزائ، یوم الدین اور یوم حساب کہتے ہیں- اس کا منکر کافر ہے سب سے پہلے ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبر مبارک سے اس طرح باہر تشریف لائیں گے کہ آپ کے داہنی ہاتھ میں حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کا ہاتھ ہو گا اور بائیں ہاتھ میں حضرت فاروق اعظم کا ہاتھ ہو گا پھرحضرت عیسیٰ علیہ السالم پھر اور انبیائ علیم اصلٰوة والسلام پھر صدیقیں پھر شہدا پھر صالحین پھر اور مونین یہ کہتے ہوئےاٹھیں گے 
اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذھَبَ عَنَّا الَحَزَنَ ط اِنَّ رَبَّنَا لَغَفّور شَکّور 
پھر اور کفار اور اشرار یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے: 
یَا وَیلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّر قَدِنَا 
نیکوں کا گروہ الگ ہو گا اور بروں کی جماعت الگ، ہر شخص برہنہ بےخطنہ اٹھے گا سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جنت کا سفید لباس پہنایا جائے گا ان کے بعد حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ان سے بہترلباس پہنایا جائے گا، ان کے بعد اور رسولوں اور نبیوں کو پھر مئوذنوں کو لباس پہنایا جائے گا پھر کوئی پیدل کوئی سوار ہو کر میدان حشر میں جائیں گے، کافر منھ کے بل چلتا ہوا جائے گا، کسی کو ملائکہ گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے، کسی کو آگ جمع کرے گی اس روز آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہو گا اس دن کی تپش ناقابل بیان ہے اللّٰہ تعالٰی اپنی پناہ میں رکھے، بھیجے( مغز) کھولتے ہوں گے، اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستر گز زمین میں جذب ہو جائے گا پھر جب زمین جذب نہ کر سکے گی تو اوپر چڑھے گا کسی کے ٹخنوں تک ہو گا کسی کے گھٹنوں تک، کسی کے گلے تک اور کافر کے تو منھ تک چڑھ کر لگام کی طرح جکڑ لے گا، جس میں وہ ڈبکیاں کھائے گا، پیاس کی شدت سے زبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گی اور بعض کی منھ سے باہر نکل آئیں گی، دل ابل کر گلےمیں آجائیں گے، ہر شخص بقدرگناہ اس تکلیف میں مبتلا ہو گا پھر سب کو نامہ اعمال دئے جائیں گے- مومنون کو سامنےسے دائیں ہاتھ میں اور کافروں کو پیچھے سے بائیں ہاتھ میں ملیں گے
نیکیاں اور بدیاں میزان عدل میں تولی جائیں گی، جس کا نیکی کا پلہ بھاری ہو گا وہ جنت میں جائے گا جس کا وہ پلہ ہلکا ہو گا وہ دوزخ میں جائے گا جس کے دونوں پلے برابر ہوں گے وہ کچھ مدت اعراف میں رہے گا، پھر اللّٰہ تعالٰی کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔ میزان میں اعمال تولنے کی کیفیت اللّٰہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے۔ حقوق العباد کا بدلہ اس طرح دلایا جائے گا کہ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دلائی جائیں گی اور جب نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوم کی برائیاں ظالم پر ڈالی جائیں گی، چرندوں پرندوں اور وحشی جانوروں وغیرہ کا بھی حساب ہو گا اور سب کو بدلہ دلا کر سوائے جن و انس کے سب کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ میزان حق ہے اس کا منکر کافر ہے پل صراط حق ہے اور اس کا منکر بھی کافر ہے، میدان حشر کے گرداگرد دوزخ محیط ہو گی جنت میں جانے کے لئے اس دوزخ پر ایک پل ہو گا جو کہ بال سے زیداہ باریک، تلوار سے زیادہ تیز، رات سے زیادہ سیاہ ہو گا، یعنی اس پر اندھیرا ہو گا، سوائے ایمان کی روشنی کے اور کوئی روشنی نہ ہو گی، اس کی سات گھاٹیاں ہیں، سب لوگوں کو اس پر چلنے کا حکم ہو گا، سب سے پہلے نبیوں کے سردار محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس پر سے گزریں گے آپ کے بعد آپ کی امت گزرے گی، پھر اور مخلوق باری باری گزرے گی، سوائے انبیاء علیہ السلام کے ۔اور کوئی کلام نہ کرے گا اور انبیاء علیہم السلام کا کلام یہ ہوگا 
اَللّٰھُمَّ سَلِّم سَلِّم 
اے اللّٰہ سلامت رکھنا سلامت رکھنا 
جہنم میں پل صراط کے دونوں طرف کانٹوں کی طرح کے آنکڑے ہوں گے، جن کی لمبائی اللّٰہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے، وہ لوگوں کو ان کے عملوں کے مطابق اللّٰہ تعالٰی کے حکم سے پکڑیں گے، بعض کو پکڑ کر جہنم میں گرا دیں گے اور بعض کا گوشت چھیل ڈالیں گے لیکن زخمی کو اللّٰہ تعالٰی نجات دے گا، مومن سب گزرجائیں گے، بعض بجلی کی مانند بعض تیز ہوا کی مانند بعض پرندوں کی مانند، بعض تیز گھوڑے کی مانند، بعض تیز اونٹ کی مانند جلد گزر جائیں گے، بعض تیز دوڑنےوالے آدمی کی مانند، بعض تیز چلنے والی پیدل کی مانند، بعض عورتوں کی طرح آہستہ، بعض سرین پر گھسیٹتے ہوئےاور بعض چیونٹی کی چال چلیں گے، کفارومنافق سب کٹ کر دوزخ میں گر جائیں گے، جس کو اس دنیا میں شرعیت پر چلنا آسان ہو گا اتنا ہی پل صراط پر چلنا آسان ہو جائے گا اور جتنا یہاں شرعیت پر چلنا مشکل ہو گا، اتنا ہی وہاں پل صراط پر چلنا اس کے لئے دشوار ہو گا حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت حق ہے، قیامت کے روز آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالٰی کے سامنے گناہگار بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔

حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت حق ہے، قیامت کے روز آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالٰی کے سامنے گناہگار بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔ حضور کو یہ فضیلت عطا ہو چکی ہے پھر بھی اللّٰہ تعالٰی کے جلال و جبروت کے ادب کی وجہ سے اللّٰہ تعالٰی سے شفاعت کی جازت مانگیں گے۔ اور سجدے میں گر کر اللّٰہ پاک کی بےشمار حمد وثنا کریں گے، پھر آپ کو شفاعت کی اجازت ہو گی، آپ بار بار شفاعت کرتےرہیں گےاوراللّٰہ پاک بخشتا رہے گا، یہاں تک کہ جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللّٰہ کہا اور اس پر مرا ہو گا، اگرچہ اس نے کبیرہ گناہ بھی کئے ہوں لیکن شرک نہ کیا ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جنت میں داخل کیا جائے گا خواہ کسی نبی کا امتی ہو آنحضرت سب کی شفاعت کریں گے اور اللّٰہ پاک قبول فرمائے گا سوائے کفر و شرک کے باقی تمام گناہوں کی معافی کے لئے شفاعت ہو سکتی ہے کبیرہ گناہوں والے شفاعت کے زیادہ محتاج ہوں محتاج ہوں گے کیونکہ صغیرہ گناہ تو دنیا میں بھی عبادتوں سے معاف ہو جاتےہیں پھر آپ کے بعد اور انبیا کرام و اولیا و شہدا و علما و حفاظ و حجاج بلکہ ہر وہ شخص جسے کوئی دینی منصب ملا ہو اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کرے گا، لیکن بلا اجازت کوئی شخص شفاعت نہ کر سکے گا۔ نبی کریم بعض اموات کی قبر میں شفاعت فرمائیں گے بعض کی حشر میں دوزخ میں جانے سے پہلے شفاعت کریں گے اور بعض کو دوزخ میں جانے کے بعد شفاعت کر کے دوزخ سے نکالیں گے، بعض کی جنت میں ترقی درجات و بلندی مراتب کے لئے شفاعت فرمائیں گے۔ بعض کی شفاعت کا آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خاص وعدہ فرما لیا ہے مثلاً 
١. جو حضورصلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مزار مبارک کی زیادت کرے، 
٢. جو حضور پر کثرت سے درود بھیجے، 
٣. جو ثواب جان کر مکہ یا مدینہ میں رہے تاکہ وہاں وفات پائے، ان کےلئے آپ نے شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے، 
کافروں یا مشرکوں کے لئے آپ کی یا کسی اور کی شفاعت بالاتفاق نہیں ہو گی، بعض گناہگار مسلمانوں کے لئے بھی آپ کی شفاعت نہ ہو گی، جیسا کہ آپ نےفرمایا کہ قدریہ اور مرجئہ کو میری شفاعت نہ ہو گی، ظالم بادشاہ کی بھی میں شفاعت نہیں کروں گا اور شرع سے تجاوز کرنے والےکی بھی شفاعت نہیں کروں گا اگر اس کا ظاہر مطلب لیا جائے تو اہل کبائر سے یہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے، یا یوں کہا جائے گا کہ ترقی درجات کی شفاعت ان کے لئے نہ ہو گی۔ بعض لوگوں سےخفیہ حساب لیا جائے گا اور اللّٰہ تعالٰی ستاری فرما کر ان کو بخش دے گا اور کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک چیز کی باز پرس ہو گی، اللّٰہ تعالٰی اس قیامت کے دن کو جو ہمارے حساب سے پچاس ہزار برس کا دن ہے اپنےخاص بندوں پر اس قدر ہلکا کر دے گا کہ ان کو اتنا وقت معلوم ہو گا جتنا کہ ایک فرض نماز میں صرف ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی کم یہاں تک کہ بعض کو ایک پلک جھپکنے  میں سارا دن طے ہو جائے گا۔ 
اللّٰہ پاک حضور اقدس محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا فرمائے گا کہ تمام اولین و آخرین حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حمد و ستائش کریں گے نیز آپ کو ایک جھنڈا مرحمت ہو گا جس کو لوائ حمد کہتے ہیں۔ تمام مومنین حضرتِ آدم علیہ السلام سے لے کر آخر دنیا تک سب اس کے نیچے ہوں گے

No comments:

Post a Comment

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here