Popular Posts

Thursday, April 28, 2016

حضرت مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی رحمت اللہ علیہ

حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب حقی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندانی پس منظر پشتینی طور پر خدمت علم ودین واشاعت حدیث وسنت رہا ہے ، یہ خاندان بخارا کا خاندان تھا جو ہندوستان میں دہلی میں آباد ہوا اوراس کے بعض افراد کچھ اسباب کی بنا پر رامپور اور میرٹھ میں بھی رہے ،

حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد مولوی محمود الحق حقّی صاحب ہردوئی آکر اقامت پذیر ہوئے ۔ یہیں محی السنّۃ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے ، بقول حضرت مولانا مجید اللہ ندوی رحمۃ اللہ علیہ ان میں بچپن ہی سے فطری آثارِ کمال ، صالحیت اور شائستگی کے جوہر نمایاں تھے ۔ 
حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی لکھتے ہیں ’’ حضرت والاکی ولادت باسعادت ۱۳۳۰ ؁ھ مطابق ۲۰؍ دسمبر ۱۹۲۰ ؁ء بمقام ہردوئی ایک دینی گھرانے میں ہوئی ، آپ کا نام ابرار الحق رکھا گیا ، آپ کے والد محترم کا نام نامی محمود الحق تھا جو حکیم الامت ، مجددالملّت ، حضرت اقدس تھانوی نور اللہ مرقدہ کے دست گرفتہ تھے ، حالانکہ پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے ، لیکن تھانہ بھون کی حاضری نے ایسے اثر دکھایا کہ بس وہیں کے ہوکر رہ کرگئے ، اور ماشاء اللہ آپ کے تدیّن وتقویٰ پر اعتماد کرتے ہوئے بارگاہ اشرفی سے آپ کو خرقۂ خلافت سے نوازا گیا ۔ اس طرح پدر وپسر دونوں ہی ایک شیخ سے اس شرف سے مشرف ہونے والے بن گئے ۔ (سوانح حضرت مولانا ابرارالحق حقی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نمبر : ۵۹ از محمود حسن حسنی ندوی ) 
آپ شروع سے خالص دینی تعلیم میں لگائے گئے ، صاحبِ فراست والد ماجد نے بدوِ شعور سے آپ کا اس کے لیے انتخاب کرلیا ، کچھ تو تعلیم آپ کے گھر کی رہی ، ماں کی گود میں بچہ کا پہلا مدرسہ ومکتب ہوتا ہے اور عموماً اسی پر مستقبل کا انحصار ہواکرتا ہے ، تعلیم کا اگلا مرحلہ حفظ قرآن کا تھا ، پھر ابتدائی عربی وفارسی کی تعلیم ، یہ مراحل ہردوئی میں ہی طے ہوگئے ، پھر آپ سہارن پور بھیج دےئے گئے ۔ ( بحوالہ سابق صفحہ نمبر ۶۰)
قناعت کی ایک مثال خود انہی کی زبانی :۔ انہوں نے فرمایا : 
جب میں دورۂ حدیث پڑھ کر سہارن پور سے فارغ ہوا تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مشورے کے مطابق جامع العلوم کانپور میں ۲۵ روپئے ماہانہ تنخواہ پر تقرر ہوگیا اس زمانہ میں میرے ایک عزیز گونڈہ میں بیمار تھے ، حضرت والد صاحب کے ارشاد کے مطابق ان سے ملنے اور ان کی عیادت کے لیے گونڈہ جانا ہوا ، میرے جو عزیز بیمار تھے ان کے ایک عزیز جو ڈاکٹر تھے وہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے ، عمر میں مجھ سے بڑے تھے ، بے تکلف آرام کرسی پر لیٹے ہوئے تھے، مجھ سے بات چیت کرنے لگے ، سلسلۂ گفتگو میں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں اور کیا تنخواہ ملتی ہے ؟ میں نے کہا کہ کانپور کے ایک مدرسہ میں درس وتدریس کا کام کرتا ہوں اور ۲۵؍روپئے ماہانہ ملتے ہیں ۔ اس پر تعجب کرتے ہوئے کہا کہ اتنے میں کیا ہوتا ہوگا؟ یہ بہت ہی کم ہے ، میں نے کہا کہ بھائی اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہو کہ مجھے ۲۵؍روپئے مل جائیں تو میں گذر کرلوں گا ، پھر اس کو ۲۵؍ روپئے مل جائیں تو فرمائیے اس کو کس قدر راحت ومسرّت ہوگی ؟ اتنا سنتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور تعجب کرکے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہی جس سے مجھ کو بہت نفع ہو ، اور بہت زیادہ سکون حاصل ہوا ، میرا تو حال یہ ہے کہ ماہانہ تین سو روپئے کماتا ہوں مگر فکر لگی رہتی ہے کہ مہینہ میں پانچ سو روپئے ملیں ، اس لئے پریشان ہی پریشان رہتا ہوں ، سکو ن حاصل نہیں ہوتا ، اور آپ کو اتنی مقدار میں کم خواہش کی وجہ سے سکون حاصل ہے ۔ (بحوالہ سابق صفحہ نمبر: ۶۹) 
مرشد تھانوی کی ہمرائی 
حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تھانہ بھون حاضری تو برسوں پوری پابندی کے ساتھ ہوتی رہی ، ایک دو دن قیام اور ہفتوں مہینوں قیام کی بھی سعادت ملی اور سفر میں بھی ساتھ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی (بحوالۂ سابق صفحہ نمبر ۷۰) 
مصنف حیات ابرار لکھتے ہیں : ۔ اصلاح وتربیت او ررجال کار کی تیاری میں حضرت حکیم الأمّت کو اللہ تعالیٰ نے جو امتیازی شادفن مرحمت فرمائی تھی وہ محتاج بیان نہیں ،حضرت کے آفتاب ضیا پاش سے باقاعدہ طور پر جذب کرنے والوں میں شاید سب سے کم عمر حضرت ہردوئی قدس سرہ ہی کی ذات تھی ۱۳۶۱ ؁ھ میں جب آپ فتح پور مدرسہ میں مقیم تھے بعمر ۲۲سال حضرت اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خلعتِ خلافت سے سرفراز ہوئے ۔ (بحوالۂ سابق صفحہ نمبر : ۷۱)
شیخ کے اصولوں کا پاس ولحاظ 
مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ؒ نے تعلیم وسلوک میں اپنے شیخ مرشد کے اصولوں کو ہمیشہ مد نظر رکھا ، یہ اصول تعلیم وتعلم کے دائرہ کے ہوں یا دعوت وتبلیغ سے متعلق ہوں ، میزبانی کے ہوں یا مہمانی کے ، تربیت واصلاح کے سلسلہ کے ہوں یاجس سلسلہ کے بھی ..........(بحوالۂ سابق صفحہ نمبر : ۷۲)
دیگر بزرگان دین سے روحانی تعلق 
حضرت مولانا محمد قمرالزماں صاحب الہ آباد ی ان کے اصلاحی وتربیتی جذبہ وفکر کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ حضرت حکیم الأمّت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد مولانا عبدالرحمن کیمل پوری سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا، ان کی رحلت کے بعد حضرت خواجہ عزیزالحسن مجذوب سے پھر حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہم سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا ، ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب کی خدمت میں مسلسل آمدورفت کا سلسلہ رکھا ، ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا احمد صاحب پرتاب گڑھی کی خدمت میں آمدورفت کا سلسلہ قائم رکھا ‘‘ ۔ (بحوالۂ سابق صفحہ نمبر : ۷۳) 
عجز کے پیکر تواضع کے خوگر 
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ مولانا خواص وعوام میں مقبولیت اور ارشاد وتربیت کے کام میں مامور کئے جانے کے باوجود شروع سے اخیر تک اپنے کو خوشہ چیں اور طالب ہی سمجھتے رہے ۔ 
اشرف المدارس اور مجلس دعوۃ الحق 
فتح پور کے زمانہ قیام میں اپنے شیخ ومرشد حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ کا ایما پاک اپنے وطن ہردوئی (اترپردیش ) میں تعلیم وتربیت کے کام کے لئے ایک مدرسہ ماہ شوال ۱۳۶۲ ؁ھ میں شروع کیا جس کو اشرف المدارس کے نام سے معنون کیا ۔ اور دعوت واصلاح کے کام کے لئے صفر ۱۳۷۰ ؁ھ میں اک مجلس کی داغ بیل ڈالی جسے ’’ دعوۃ الحق ‘‘ کا نام دیا ، یہ حضرت تھانوی کی ہی ’’ دعوۃ الحق تحریک ‘‘ کی تجدید تھی ، اسی کے ساتھ اصلاح باطن وتزکیہ کے کام کے لئے خانقاہ کا نظام قائم کیا اور اس میں وہی اصول وضوابط رکھے جو تھانہ بھون کے تھے ۔ مدرسہ میں مولانا نے بھیڑ اکٹھا کرنے کے بجائے تعداد کم رکھ کر اس پر محنت کرنے کا اصول اپنایا ۔ کمیت کے بجائے کیفیت پر ان کی زیادہ نظر رہی ۔ 
علوم میں سب سے افضل واشرف علم قرآن مجید کی صحیح طور پر قرأت اور سنت کے مطابق حروف کی ادائیگی اور اس کی صحیح اور اچھی یادداشت کی فکر پر نظر رہی اس میں ان کے مدرسہ نے نہ صرف ملک وبیرون ملک میں اچھی شہرت پیدا کرلی بلکہ ان کے نظام کے طرز پر برصغیر میں مدارس ومکاتب کا قیام عمل میں آنا شروع ہوگیا ۔ (بحوالۂ سابق / ۷۷)

ضیافت میں نظم وضبط 
نظم وضبط حضرت مولانا قدس سرہ کا مزاج بن گیا تھا اور اخلاق حسنہ کا ہی ایک حصہ ہے جس سے دوسرے اذیت وتکلیف سے محفوظ رہتے ہیں اور مقصود تک آسانی سے رسائی ہوجاتی ہے ۔ اس لئے نظم وضبط کے خلاف کوئی بات پیش آتی تو ان کو ناگواری ہوتی ان کا اس پر زور اسی لئے ہوتا تھا کہ لوگ تکلیف سے بچیں ۔ (بحوالۂ سابق / ۷۹) 
وعظ ونصیحت میں مولانا جذباتی طریقہ کے قائل کم تھے ، وہ اس کے قائل زیادہ تھے کہ تھوڑی تھوڑی بات بتائی جائے ، جس کو مخاطب محفوظ رکھ سکے ، اور اپنے معمولات زندگی میں داخل کرسکے ۔ اس سے مولانا کبیدہ خاطر نہیں ہوتے تھے کہ نصیحت کا فوری اثر سامنے نہیں آرہا ہے ، وہ سمجھتے تھے کہ تذکیر کا مطلب ہی یہ ہے کہ بات بار بار کہنی ہے اور بتدریج کہنی ہے ۔ (بحوالۂ سابق / ۸۲) 
مولانا اصلاح عوام واصلاح خواص دونوں میں ان کی نفسیات کا خاص خیال رکھتے تھے ، نہ خود بوجھ بنتے نہ دوسرے پر اتنا بار ڈالتے کہ وہ اٹھا نہ سکے ، خود جن پروگراموں یا جلسوں میں تشریف لے جاتے وہاں بھی اس کا لحاظ رکھتے اور اگر وہ داعی ہوتے تو اکرامِ ضیف واکرام علم وعلماء میں ذراکمی نہ ہونے دیتے ۔ (بحوالۂ سابق / ۸۴) 
نظم وضبط مولانا کا خاص امتیازی وصف تھا ، ہر معاملہ میں اس کا پورا لحاظ رکھتے تھے وہ جب دوسرے سے ملتے یا معاملہ کرتے تو اس کے جذبات کا بھی خیال کرتے مگر دین وسنت کے خلاف کوئی بات دیکھتے تو پھر وہ خاموش نہ رہتے بلکہ اس کی وضاحت کردیتے ۔ 
نظافت ونفاست
ہر چیز عمدگی اور سلیقہ سے ہو ، لباس ، چال ڈھال ، گفتگو، کھانے پینے ہر چیز میں وہ یہ دیکھتے تھے کہ اس بات کا اس میں کتنا خیال رکھا گیا ہے ، مدرسوں وغیرہ میں جاتے ، سیدھے مطبخ میں پہونچ جاتے ، غسل خانوں اور بیت الخلاء کو جاکر دیکھنے لگتے .......... مولانا اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتے کہ کارخانوں میں کام کرنے والے اور مطبخ کے ملازمین اپنے انہی کپڑوں میں نماز کے لئے مسجد آجائیں جو صاف ستھرے نہ ہوں ، میلے اور بدبودار ہوں ، انہیں نماز کے لئے صاف ستھرے کپڑے الگ رکھنے چاہئے ، مسجد میں حاضری کا یہ ادب بھی ہے اور ایذائے مسلم سے بچاؤ کا سامان بھی ہے ۔ ( بحوالۂ سابق / ۱۱۰) 
مولانا کا باطن کے نکھارنے کے ساتھ ساتھ ظاہر کے بناؤ پر بڑا زور رہا کرتا تھا ، وہ اپنی نجی مجلسوں میں ، خانقاہ اور مدرسہ میں ، سفروں اور پروگراموں ، ملاقاتوں اور مراسلتوں میں اس پر خصوصیت سے زور دیتے ۔ ......... ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’ ظاہر اپنے باطن کو کمال پر پہونچاتا ہے ، مسلمانوں نے دین کے ظاہر کو جب سے ترک کیا ہے وہ ترقیوں سے محروم کردئیے گئے ہیں ‘‘۔ انہوں نے فرمایا ’’ آج ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں ، اور ہمیں خود اپنے کو بدلنے کا کچھ خیال نہیں ہے ‘‘ ......... اور فرمایا ’’ اپنے ظاہر کو بنانے کے لئے دوباتوں کا التزام کیجئے ، ایک تو جماعت سے نماز پڑھئے ، دوسرے یہ کہ اپنے چہروں کو داڑھی سے پرنور بنائیے ‘‘۔ (بحوالۂ سابق /۱۱۳)

Thursday, April 21, 2016

غیبت اور اس سے بچنے کا طریقہ

اللہ جل شانہ وعم نوالہ نے اپنے حبیب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو جن بے شمار صفات سے سرفراز فرمایا ہے ان میں سے تین صفات ”بشیر،نذیر،داعی الیٰ اللہ“ہیں۔

اول کا تعلق اللہ کی اطاعت پر ابھارنے اور فرماں برداری پر انعامات و اعمال صالحہ کے فضائل اور مطیع بندوں کے بہترین انجام اور مقام کو بیان کرنے کے ساتھ ہے تو دوسری صفت کا تعلق نا فرمانیوں اور گناہ سے بچانے اور گناہ کے اثرات بیان کرنے،معصیت کے انجام سے ڈرانے اور نجات دلانے کے ساتھ ہے اور ان دونوں صفات کا اظہاردعوت الیٰ اللہ یعنی اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلانے اور ملانے کے ذریعہ ہوا۔نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں تو ان کی امت آخری امت ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے طفیل ان صفات سے ان کی امت مرحومہ کو بھی نوازا گیا ہے اور یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے اور اس امت کی خیر وبھلائی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:﴿کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للِنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾․(پارہ نمبر4)

”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے نفع کے لیے بھیجے گئے کہ بھلی باتوں کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔“

دوسری جگہ ارشاد ہے کہ:” تم میں سے ایک جماعت خیر کی طرف بلانے والی ہونی چاہیے، جو بھلائی کا حکم کرے اور برائیوں سے روکے۔“معروف وہ تمام اعمال ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اورمنکر وہ تمام افعال ہیں جن سے روکا گیا اور بچنے کاحکم دیا گیا ہے۔اول کو مامورات و عبادات،نیکی کے کام اور دوسرے کو منہیات وگناہ کہتے ہیں۔

علمائے راسخین نے لکھا ہے کہ جو درجہ احکامات کی بجا آوری کا ہے وہی مرتبہ معاصی ومنہیات سے بچنے کا بھی ہے اور جو حکم اللہ کے بندوں کو اطاعت پر لانے کی کوشش کا ہے۔وہی حکم معاصی وگناہوں سے بچانے کا بھی ہے۔عام طورسے مسلمانوں میں اعمال صالحہ کے فضائل اور ان کے اجروثواب کو خوب بیان کیا جاتا ہے، اپنی جگہ یہ بھی ضروری ہے، لیکن حکمت اور مصلحت کے ساتھ منکرات و معاصی اور ان پر مرتب ہو نے والی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کو بیان کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ ناراضگی کے ڈر سے ایمان والا اللہ کریم کی نافرمانی سے بچے۔

اسی لگن وکڑھن و فریضہ کی نیت سے اپنے تمام مسلمان بھائیوں اوربہنوں کی خدمت میں ان سطور میں ایک ایسے گناہ کا تذکرہ کرنا ہے جس میں ابتلا اور رواج ہمارے معاشرے میں خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا جب کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور عام طور سے اس سے بے تو جہی ہے۔اللہ کریم ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔

وہ گناہ کبیرہ مسلمان کی غیبت و آبروریزی ہے اور (بدظنی، بدگمانی)۔

برکة العصرکة قطب الاقطابشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ نے فضائل ماہ رمضان کی فصل اول میں بہت ہی درد بھرے الفاظ میں قلبی کڑھن و بے چینی کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

”ہم لو گ اس سے بہت ہی غافل ہیں۔عوام کا ذکر نہیں، خواص مبتلا ہیں۔ان لوگوں کو چھوڑ کر، جو دنیادار کہلاتے ہیں،دین داروں کی مجالس بھی بالعموم اس سے کم خالی ہوتی ہیں ۔اگر اپنے یا کسی کے دل میں کچھ کھٹک بھی پیدا ہو جائے تو ا س پر اظہارِ واقعہ اور بیانِ حقیقت کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔

ہم اپنی محفلوں ،مجلسوں اور گفتگو پر جب نظر ڈالیں گے تو پھر ہی اندازہ ہو گا کیا کما کر اور گنوا کراٹھتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس گناہ کبیرہ کی نفرت نصیب فرمایا کر چھوڑنے،بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سود کے علاوہ اتنے سخت الفاظ ذکر نہیں فرمائے۔نبی کریم رحمةللعالمین صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس معصیت پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:﴿وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ﴾یعنی ”ایک دوسرے کی غیبت مت کرو (کیوں کہ یہ ایسابرا عمل ہے جیسے اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا)کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے؟تم اس کو برا سمجھتے ہو“لہٰذا جب اس عمل کو برا سمجھتے ہو تو غیبت کو بھی برا سمجھو۔

سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ”سود بہت بڑا گناہ ہے۔بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے، اس گناہ کا ادنی درجہ یہ ہے کہ ”العیاذباللہ“ جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا (بدکاری) کرے“ پھر فرمایا کہ سب سے بدترین سودیہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی آبرو (عزت) پر حملہ کرے۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ”غیبت کا گناہ زنا کے گناہ سے بھی بد تر ہے(کیوں کہ زنا کو گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن غیبت کو گناہ نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ عام مشاہدہ ہے)۔“

غیبت کی تعریف
ہمارے حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیاہے کہ”ایک صحابینے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! غیبت کیا ہے؟نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ذکرک اخاک بما یکرہ“ کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں ایسی بات کرنی جو اسے نا گوار ہو۔سائل نے پوچھا”ان کان فی اخی ما اقول؟“اگر اس میں واقعةًوہ بات موجود ہو جو کہی گئی ہے؟حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب ہی تو غیبت ہے۔اگر واقعةًموجود نہ ہو تب تو بہتان ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے۔

غیبت گنا ہ کبیرہ!
علمائے امت نے تحریر فرمایا ہے جس طرح شراب پینا،ڈاکہ ڈالنا ،خنزیرکا گوشت کھانا گناہ کبیرہ ہیں، یہ غیبت بھی اسی طرح، بلکہ اس سے سخت گناہ اور قطعی حرام ہے۔کیو ں کہ بولنے والا اور سننے والا دونوں ہی شریک ہوتے ہیں اور معاشرے پر اس کے اثرات متعدی ہوتے ہیں اور کئی گناہ(بد گمانی،تہمت،چغلی، بہتان)وجود میں آتے ہیں ۔

غیبت کر نیوالوں کا انجام !
سنن ابی داؤد میں حضرت انس  سے مروی ہے۔”قَالَ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم: لما عرج بی مررت بقوم لھم اظفار من نحاس، یخمشون بھا وجوھھم و صدورھم، فقلت:من ھوٴلآء یا جبریل؟قال: ھوٴلآء الذین یأکلون الناس، ویقعون فی أعراضھم“․ (کتاب الادب،باب الغیبة) 

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”جب مجھے معراج کرائی گئی تو وہاں میرا گذر ایسے لوگوں پر ہوا جو اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے وسینے کو نوچ رہے تھے۔میں نے حضرت جبرئیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے بتایا کہ یہ ”وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے(غیبت کرتے تھے)اورلوگوں کی عزت وآبرووٴں پر حملے کیاکرتے تھے۔“اللہ جل شانہ ہماری حفاظت فرمائیں۔

ایک حدیث پاک میں ہے کہ غیبت کرنے والوں کو پل صراط کے اوپر جانے سے روک دیا جائے گااور کہا جائے گا کہ تم آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک اس غیبت کا کفارہ ادا نہ کردو گے، یعنی جن کی غیبت کی ہے ان سے معافی نہ مانگ لو اور وہ تمہیں معاف نہ کردیں،اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے۔

دو اہم واقعے
ہمارے حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے نقل فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا۔روزے میں اس شدت سے بھوک لگی کہ ناقابل برداشت بن گئی،ہلاکت کے قریب پہنچ گئیں۔صحابہ کرام  نے دریافت کیا تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجا اور قے کرنے کا حکم فرمایا۔ دونوں نے قے کی تو تازہ کھایا ہوا خون اور گوشت کے ٹکڑے نکلے۔صحابہ کرام  کی حیرت پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال روزی سے تو روزہ رکھا اور حرام چیزوں کو کھایا کہ لوگوں کی غیبت میں مشغول رہیں۔

دوسرا اہم واقعہ
بندہ نے اپنے بڑوں سے سنا کہ ایک مرتبہ حضرت لقمان حکیم نے اپنے خادم وغلام کو جانور ذبح کرنے کا حکم فرمایا اور کہا کہ سب سے عمدہ اور بہترین حصہ لے کر آوٴ،وہ زبان اور جگر لایا،دوسرے دن پھر ذبح کرنے کا حکم دے کر کہا کہ آج سب سے خراب گوشت کا حصہ لانا۔چناں چہ اس نے دوسرے دن بھی زبان و جگرہی پیش کیا،جس پر تعجب ہوا اور دریافت فرمایا کہ یہ کیا بات ہے کہ ایک ہی چیز عمدہ وطیب بھی اور خراب و خبیث بھی؟اس نے دست بستہ عرض کیا کہ حضرت! اگر یہ صحیح ہے تو تمام بدن و اعمال صحیح اور اگر یہ خراب تو پھر سب کچھ خراب ہے۔ 

عبرت ناک خواب
حضرت ربعی رحمةاللہ علیہ ایک تابعی ہیں ،وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے باتیں کررہے ہیں ،میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا،دوران گفتگو غیبت شروع ہو گئی،مجھے یہ بہت ناگوار ہوا اورمیں اٹھ کر چلا گیا،تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ غیبت کا موضوع ختم ہو گیا ہو گا، چناں چہ واپس آکر بیٹھ گیا پھر تھوڑی دیر مختلف باتیں ہوتی رہیں،اس کے بعد غیبت کا سلسلہ شروع ہو گیا،اب میری ہمت کمزور پڑگئی اور میں اٹھ کرنہ جا سکا۔

ان لوگوں کی غیبت پہلے تو میں سنتارہا اور پھر میں نے بھی غیبت میں ایک دو جملے کہہ دیے۔جب اس مجلس سے اٹھ کر گھر آگیا اور رات کو سویا تو خواب دیکھا ”انتہائی سیاہ فام(حبشی)آدمی ایک بڑے طشت میں میرے پاس گوشت لایا، غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے اور سیاہ فام آدمی مجھے یہ گوشت کھانے کو کہہ رہا ہے کہ کھاوٴ! یہ خنزیر کا گوشت۔میں نے کہا کہ میں تو مسلمان آدمی ہوں،یہ گوشت ناپاک حرام ہے، کیسے کھاوٴں؟اس نے کہا کہ تمہیں کھانا پڑے گا اور وہ ٹکڑے اٹھا، اٹھا کر زبردستی میرے منہ میں ٹھونسنے شروع کردیے۔میں منع کررہا ہوں اور وہ ٹھونس رہا ہے۔اسی شدید اذیت وتکلیف میں آنکھ کھل گئی۔

بیدار ہونے کے بعد سے تیس دن تک میرایہ حال رہا کہ جب بھی کھانے کے وقت کھانا کھاتا تو خنزیر کا گوشت بدترین ،بدبودار ،خراب وہی ذائقہ، جو خواب میں کھاتے ہوئے محسوس ہوا تھا، میرے کھانے میں شامل ہو جاتا، اس واقعہ اور خواب کے ذریعہ اللہ کریم نے مجھے متنبہ کردیا کہ ذراسی دیر جو میں نے غیبت کی تھی اس کا یہ اثر ہے کہ تیس دن تک براذائقہ برداشت کرنا پڑا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

غیبت کا تعلق اللہ جل شانہ کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کی حق تلفی سیبھی ہے، یہی وجہ کہ اللہ تعالیٰ شانہ اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بہت ہی سخت الفاظ کے ذریعہ اس کی حرمت کو بیان کیا ہے۔یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مردوعورت،امیر،غریب،مالک،مزدور،استادو شاگرد، والدین، میاں بیوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ،آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔غیبت کا دنیا میں بدترین اثریہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قلوب میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اللہ کی رحمت سے محرومی ہو جاتی ہے۔آپس کی محبتیں ختم ہو جاتی ہیں اور دیگر کئی گناہ وجود میں آتے ہیں، ہم کو اس طرف بہت ہی توجہ کرنی چاہیے کہ ابتلائے عام ہے۔اس طرف بھی توجہ کریں کہ ماتحتوں،ملازمین،گھر میں کام کرنے والیوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کے بجائے دعائیہ جملے کہہ دیا کریں۔مثلاً اللہ تم کو ہدایت دے،اللہ تمہیں جنت میں لے جائے،اللہ تم کو نیک بخت کرے۔

غیبت کا کفارہ
ہم مسلمانوں کو کسی بھی حال میں نا امید نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کو رحمةللعالمین،ایمان والوں پر انتہائی مہربان بنایا ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمام گناہوں سے بچنے،بالخصوص غیبت سے چھٹکارا پانے اور تلافی کا طریقہ بھی اپنی امت کو تعلیم فرمایا۔

(الف)مندرجہ ذیل دعا خوب اہتمام سے اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے۔
”اللہم، انی اتخذ عندک عھداً لن تخلفنیہ، فانما انا بشر، فایما رجل موٴمن اٰذیتہ، او شتمتہ، او لعنتہ، او جلدتہ، او ضربتہ، او غبتہ، او ظننتہ سوءً فاجعلھا لہ صلٰوة و زکٰوةً، تقربہ بھا الیک“․

(ب)ہر مجلس کے اختتام پر مجلس کے کفارہ والی دعا اہتمام سے پڑھی جائے۔سبحانک اللہم وبحمدک، نشھد ان لا الہ الا انت، نستغفرک، ونتوب الیک۔دوسری دعا۔سبحان ربک رب العزت عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمدللہ رب العالمین․

(ج)جس مسلمان کی غیبت کی ہے اس سے معافی مانگی جائے۔اگر معافی مانگنا ممکن نہ ہو تو خوب ایصال ثواب کیا جائے۔

(د)خود غیبت سے بچنے کی کوشش کریں کہ ہر مجلس کے بعد چند لمحوں کے لیے سوچیں کہ غیبت تو نہیں ہوئی۔

(ھ)کوئی غیبت کررہا ہے تو پیار محبت سے اس کو منع کریں یا خود اس مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”فوالذی نفسی بیدہ لا یوٴمن احدکم حتٰی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ“․
”تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک تم اپنے بھائی(دوسرے مسلمان)کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے کرتے ہو۔“

جب ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہماری غیبت کرے تو ہم بھی دوسرے کی غیبت نہ کریں۔

مضمون کی مناسبت سے باتیں تو اور بھی ذہن میں آرہی ہیں، لیکن فی الحال حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ واعلی اللہ مراتبہ کی دعا پر اسی قد پر اکتفا کرتاہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اس بلا(گناہ)سے محفوظ فرمائیں اور بزرگوں،دوستوں(مخلصین،قارئین)کی دعا سے مجھ ناکارہ وسیہ کار کو بھی غیبت سے محفوظ فرمائیں کہ بندہ باطنی امراض میں کثرت سے مبتلا ہے۔

گستاخان رسول صلی الله علیہ وسلم کا عبرت ناک انجام

سلطان نورالدین زنگی  ایک عبادت گزار، شب بیدار بادشاہ تھا، ایک عظیم الشان سلطنت کا فرماں روا ہونے کے باوجود ایسا مردِ درویش تھا جس کی راتیں مصلیٰ پر گزرتی تھیں اور دن میدان جہاد میں۔ مصر کے اس مجاہد، دین دار بادشاہ کی حکومت حرمین شریفین تک تھی اور یہ سارا علاقہ اس کے زیر نگیں تھا۔ وہ عظمت وکردار کا ایک عظیم پیکر تھا ،جس نے اپنی نوک شمشیر سے تاریخ اسلام کا ایک روشن باب لکھا۔ سلطان نورالدین زنگی رات کا بیشتر حصہ عبادت ومناجات میں گزارتا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ نماز عشا کے بعد بکثرت نوافل پڑھتا او رپھر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر سینکڑوں مرتبہ درود شریف بھیج کر تھوڑی دیر کے لیے بستر پر لیٹ جاتا تھا۔ چند ساعتوں کے بعد پھر نماز تہجد کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا تھا او رصبح تک نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت میں مشغول رہتا۔

خواب میں زیارت رسول صلی الله علیہ وسلم
557ھ،1162ء کی ایک شب وہ اورادوفضائل سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹا تو خواب میں تین بار حضور انور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ سلطان نے متواتر تین رات حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ ہر مرتبہ دو آدمیوں (انسانی شیطانوں) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرور کونین صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نور الدین ! یہ دو آدمی مجھے ستارہے ہیں۔ ان کے شر کا استحصال کرو۔“ نور الدین یہ خواب دیکھ کر سخت مضطرب ہوا، بار با ر استغفار پڑھتا اور رو رو کر کہتا۔ ” میرے آقا ومولا کو میرے جیتے جی کوئی ستائے یہ نہیں ہو سکتا۔ میری جان ، مال، آل واولاد سب آقائے مدنی صلی الله علیہ وسلم پر نثار ہے۔ خدا اس دن کے لیے نو رالدین کو زندہ نہ رکھے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم غلام کو یاد فرمائیں اور وہ دمشق میں آرام سے بیٹھا رہے۔“ #
        ایک عشقِ مصطفی ہے اگر ہو سکے نصیب 
        ورنہ دھرا ہی کیا ہے جہان خراب میں
        فاتح کون ومکاں ہے جذبہ عشقِ رسول 
        کچھ نہیں ہوتا یہاں بے گرمئی سوزِ بلال

سلطان کی بے چینی
نورالدین زیارت رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رارشاد رسول کے بعد بے چین ہو گیا او راسے یقین ہو گیا کہ مدینہ طیبہ میں ضرور کوئی ایسا ناشدنی واقعہ ہوا ہے، جس سے رحمت دارین صلی الله علیہ وسلم کی روح اقدس کو تکلیف پہنچی ہے ۔ خواب سے بیدار ہوتے ہی اس نے بیس اعیانِ حکومت کو ساتھ لیا اور بہت ساخزانہ گھوڑوں پر لدوا کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ دمشق کے لوگ سلطان کے یکا یک عازمِ سفر ہونے سے بہت حیران ہوئے، لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ اصل بات کیا ہے؟

اہل مدینہ کی دعوت
دمشق سے مدینہ منورہ پہنچنے میں عام طور پر بیس پچیس دن لگتے تھے لیکن سلطان نے یہ فاصلہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ طے کیا اور سولہویں دن ہی مدینہ طیبہ جا پہنچا۔ اہل مدینہ اس کی اچانک آمد پر حیران رہ گئے۔ سلطان نے آتے ہی شہر میں آنے جانے کے دروازے بند کر دایے۔ پھر منادی کرادی کہ آج تمام اہل مدینہ اس کے ساتھ کھانا کھائیں، تمام اہل مدینہ نے نہایت خوش دلی سے سلطان کی دعوت قبول کی۔ اس طرح مدینہ منورہ کے تمام لوگ سلطان کی نظر سے گزر گئے، لیکن ان میں وہ دو آدمی نہ تھے جن کی شکلیں اسے سچے خواب کے ذریعے دکھائی گئی تھیں۔

بزرگ صورت شیطان
سلطان نے اکابر شہر سے پوچھا کہ کوئی ایسا شخص تو باقی نہیں رہا جو کسی وجہ سے دعوت میں شریک نہ ہو سکا ہو؟ انہوں نے کہا کوئی ایسا تو نہ رہا، البتہ دو خدار رسیدہ مغربی زائر، جو مدت سے یہاں مقیم ہیں، نہیں آئے۔ یہ دونوں بزرگ عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ اگر کچھ وقت بچتا ہے تو جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ،سوائے اس کے کسی سے ملتے ملاتے نہیں۔

سلطان کا خون کھول گیا
سلطان نے حکم دیا ان دونوں کو بھی یہاں لاؤ۔ جب وہ دونوں سلطان کے سامنے حاضر کیے گئے تو اس نے ایک نظر ہی میں پہچان لیا کہ یہی وہ دو ( شیطان صفت) آدمی ہیں جو اسے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر سلطان کا خون کھول اُٹھا، لیکن تحقیق حال ضرور ی تھی، کیوں کہ ان (مکاروں) کا لباس زاہدانہ اور شکل وصورت مومنوں کی سی تھی۔ سلطان نے پوچھا تم دونوں کہاں رہتے ہو ؟ انہوں نے بتا یاکہ روضہٴ اقدس کے پا س ایک مکان کرایہ پر لے رکھا ہے اور اسی میں ہر وقت ذکر الہٰی او رعبادت خداوندی میں مشغول رہتے ہیں۔

خوف ناک انکشاف
سلطان نے وہیں ان دونوں کو اپنے آدمیوں کی نگرانی میں چھوڑا اور خود اکابر شہر کے ہم راہ اس مکان میں جا پہنچا، یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا، جس میں نہایت مختصر سامان مکینوں کی زاہدانہ زندگی کی خبر دے رہا تھا، اہل شہر (دھوکے سے) ان دونوں کی تعر یف میں رطب اللسان تھے اور بظاہر کوئی چیز قابل اعتراض نظر نہیں آتی تھی، لیکن سلطان کا دل مطمئن نہ تھا اس نے مکان کافرش ٹھونک بجا کر دیکھنا شروع کیا۔ یکا یک سلطان کو ایک چٹائی کے نیچے فرش ہلتا ہوا محسوس ہوا، چٹائی ہٹا کر دیکھا تو وہ ایک چوڑی سل تھی، اسے سر کایا گیا توا یک خوف ناک انکشاف ہوا۔ یہ ایک سرنگ تھی جو روضہٴ اقدس کی طرف جاتی تھی ۔سلطان سارا معاملہ آناً فاناً سمجھ گیا اور بے اختیار منہ سے نکلا: صدق الله وصدق رسولہ النبی الکریم․

بھیڑ نما بھیڑئیے
سادہ مزاج اہل مدینہ بھی ان بھیڑ نما بھیڑیوں کی یہ حرکت دیکھ کر ششدر رہ گئے، سلطان اب قہر وجلال کی مجسم تصویر بن گیا اور اس نے دونوں ملعونوں کو پابہ زنجیر کرکے اپنے سامنے لانے کا حکم دیا۔ جب وہ سلطان کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے ان سے نہایت غضب ناک لہجے میں مخاطب ہو کر پوچھا۔ سچ سچ بتاؤ تم کون ہو ؟ اور اس ناپاک حرکت سے تمہارا کیا مقصد ہے ؟ ۔ دنووں ملعونوں نے نہایتبے شرمی اور ڈھٹائی سے جواب دیا۔” اے بادشاہ! ہم نصرانی ہیں ( بعض روایتوں میں یہ ہے کہ یہ دونوں یہودی تھے) اور اپنی قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کی لاش چرانے پر مامور ہوئے ہیں ۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کوئی کار ثواب نہیں ہے ۔ لیکن افسوس کہ عین اس وقت جب ہمارا کام بہت تھوڑا باقی رہ گیا تھا تم نے ہمیں گرفتارکر لیا۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ سرنگ حضرت عمر  فارق اعظم رضی الله عنہ کے جسد مبارک تک پہنچ چکی تھی، یہاں تک کہ ان کا ایک پاؤں ننگاہو گیا تھا۔

گستاخانِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا انجام
سلطان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا، اس نے تلوار کھینچ کر ان دونوں بدبختوں کی گردنیں اڑا دیں اور ان کی لاشیں بھڑکتی ہوئی آگ کے الاؤ میں ڈلوادیں۔ یہ کام انجام دے کر سلطان پر رقت طاری ہو گئی اور شدت گریہ سے اس کی گھگی بندھ گئی۔ وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں روتا ہوا گھومتا تھا او رکہتا تھا: زہے نصیب کہ اس خدمت کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس غلام کا انتخاب فرمایا #
        منت منہ کہ خدمت سلطان ہمیں کنی
        منت شناس ازوکہ بخدمت گذاشت
﴿یختص برحمة من یشاء والله ذوالفضل العظیم﴾․

جب ذرا قرار آیا تو سلطان نے حکم دیا کہ روضہ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے گرد گہری خندق کھود کر اسے سیسہ سے بھر دیا جائے، چناں چہ اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ زمین سے پانی نکل آیا ،اس کے بعد اس میں سیسہ بھر دیا گیا، تاکہ زمانے کی دست بر دسے ہر طرح محفوظ رہے، آج بھی اہل مدینہ سلطان نورالدین کا نام نہایت محبت واحترام سے لیتے ہیں او راس کا شماران نفوس قدسی میں کرتے ہیں جن پر سید البشر صلی الله علیہ وسلم نے خود اعتماد کااظہار فرمایا اور ان کے محب رسول ہونے کی تصدیق فرمائی #

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here