کچھ لڑکیاں شادی کے فورا بعد اپنے سسرال والوں کی شکایتیں اپنے شوہر کو کرتی نظر آتی ہے. جب شوہر نہیں سنتا تو آہستہ آہستہ اپنے میکے آ کر اپنے ماں باپ کو بتاتی ہیں کہ مجھے اپنی ساس، نند، یا تیسرے شخص سے یہ مسئلہ ہے. یا فلاں جادو کرتا کرواتا ہے.شوہر میری سنتا ہی نہیں. اولاد نہیں ہوتی. گهر میں سکون نہیں ہے. پیسہ بہت ہے مگر برکت نہیں.یا پیسہ آنا بند ہو گیا ہے. کوئی میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا. اولاد اگر ہو جائے تو نافرمان بہت ہے. پھر اسی لڑکی کو فلاں جادو کے توڑ کرنے والے دو نمبر عامل کے پاس لے جاتے ہیں جو پہلے ہی شکار کے انتظار میں گهات لگائے بیٹھا ہوتا ہے اور وہاں عزت بھی جاتی ہے اور مال بھی. اکثر تو شادیوں سے پہلے ستاروں کی چالیں دیکھ کر شادیوں کے دن رکھتے ہیں مگر نتیجہ پهر وہی طلاق یا گهر کا سکون تباہ و برباد ہو گیا اور جادو اور آفات کے دروازے کھل جاتے ہیں.یہ ہر خاندان کی کہانی ہے کہ سب کچھ ہے مگر شادی کے کچھ عرصہ بعد سب حالات بدل گئے سکون تباہ ہو گیا اور جو مال تھا ضائع ہو گیا.
آج بتاتا ہوں کہ اس کے پیچھے کیا راز ہے جو ہنستے مسکراتے گهر کو ماتم گاہ بنا دیتا ہے.
قارئین !
ہم لوگوں میں رواج ہے کہ نکاح سے پہلے کچھ رسومات مثلاً تیل مہندی کی ہیں.جن میں غیر محرم مرد اور عورتوں کا بہت قرب ہو جاتا ہے. تنگ لباس اور کھلے گلے، ننگے بازو،کهلے بال اور خوشبو سے مہکتے جسم. اپنے آپ کو نمایا کرنے کی کوشش اور حد سے بڑھ جانا. نظروں کا گناہ، جو سب گناہوں کو جنم دیتا ہے.گانے لگا کر سب کے سامنے ناچنا اور وہ بھی اسی مختصر لباس کے ساتھ.غیر محرموں کا آپس میں نمبرز کا تبادلہ اور پهر نئے گناہوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے. حرام رزق سے شادی کرنا.اور جب اللہ اللہ کرکے نکاح کا دن آتا ہے تو نکاح کی تقریب کے بعد بڑے ادب کے ساتھ لڑکی کو کار تک "قرآن شریف" کے سائے میں الوداع کیا جاتا ہے تاکہ برکت مل سکے.
مگر یہی چیز نکاح کو تباہ کرنے کی وجہ بنتی ہے.
قارئین !
یہ قرآن شریف اگر آپ کے حق میں سفارش کر سکتا ہے تو زرا سوچیے تو سہی یہ "بد دعا" نہیں دے سکتا ؟دیتا ہے اور وجہ بھی یہی ہے کہ جب آپ اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کی ساری رسومات قرآن شریف کے خلاف کریں گے گناہوں میں خود بھی ڈوبے اور دوسرے بھی آپ کی وجہ سے ان گناہوں میں ملوث ہو گئے.اور نکاح والے دن قرآن شریف کو مذاق بنا کر اپنی بہن ، بیٹی کے سر پر رکھ دیتے ہیں.اس وقت قرآن چیخ اٹھتا ہے کہ "یا اللہ سارے کام آپ اور آپ کے حبیب ﷺ کی مرضی کے خلاف ہوئے ہیں.میرا اور آپ کے حبیبﷺ کے حکم کا مذاق اڑایا گیا ہےمجھ میں لکھے آپ کے پیغامات اور آپ کے حبیب ﷺ کے احکامات کی تذلیل کی گئی ہے. یا اللہ ان لوگوں نے آپ کا اور آپ کے حبیب ﷺ کے احکامات کی تذلیل کی ہے توں ان کو زلیل و رسوا کر دے.انہوں نے آپ کے حبیب ﷺ کے حکم سے منہ موڑا ہے توں ان سے منہ موڑ لے.تباہ و برباد کر دے ان کو اور ان کی نسلوں کو.
اور پھر ایسا ہو جاتا ہے اللہ کی قسم ایسا ضرور ہوتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے گهر اجڑتے دیکھے ہیں. سکون تباہ ہوتے دیکھیں ہے.بظاہر پر سکون اور عیشِ آرام والی زندگی گزارتے نظر آنے والے گهروں کا سکون تباہ کرچکے ہوتے ہیں. مجھے آپ کو خبر نہ ہو یہ الگ بات ہے ورنہ،کبھی کسی کو پوچھ کے دیکھئیے گا کہ شادی سنت کے مطابق ہوئی تھی یا دنیاداروں والی اور پهر اندر کے حالات بھی پوچهیئے گا سب سامنے آجائے گا.چہرے خبریں دے دیتے ہیں سب کچھ پیسا ہی تو نہیں آخرکار اس "کریم رب" اور اس کے حبیب ﷺ کے احکامات بھی تو ہیں ہمارے لیئے وہ کون اپنائے گا ؟
قارئین !
یہ طلاقیں، بچوں کی تقسیم، میاں بیوی کے باہر ناجائز تعلقات، آپسی لڑائی جھگڑے، جادو، دین و دنیا کی مشکلات، قرضے، سود، بے روزگاری یہ سب قرآن شریف کی "بددعائیں" نہیں تو اور کیا ہیں ؟خدارا خود بھی ان نخوستوں سے بچیں اور"نبی کریم ﷺ" کی امت کو بچانے کی بھی ٹوٹی پھوٹی کوشش کریں.
یہ میسج بهلائی سمجھ کر والدین اور اپنی زندگی کا جو آغاز کرنے جارہے ہیں ان لڑکے لڑکیوں تک ضرور پہنچائیں شاید کسی کی دنیا و آخرت آپ کی وجہ سے بچ جائے. آمین
آخر میں ایک بات کہوں گا جس کی زندگی کے کسی بھی عمل میں "وہ کریم رب" اور اس کا "حبیب ﷺ" نہیں ہوگا وہ عمل وہ کام آپ کی تباہی کا پہلا خاموش پیغام ہو گا جس کا نقصان آپ یا آپ کی نسلیں بھگتیں گی.دعا کیا کیجئے کیونکہ جن خاص لوگوں کو رات کے آخری پہر کے سجدے نصیب ہوتے ہوں ان پر فرض ہے کہ وہ سوئی ہوئی امت کے لئے دعا کریں..
Popular Posts
-
بِسْمِ الْلّٰهِ الْرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم . "اِنشاءاللّٰه" یا "اِن شاءاللّٰه" ★عام طور پر اردو لکھنے والے "اگ...
-
In this Amazing and endless book of durood sharif the author god blessed him ,he collected more than 800 names of Rasulallah Peace be upo...
-
پہلی دلیل --- دلیل صنعت تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کے صنعت سے صانع(بنانے والا) کی خبر ملتی ہے مصنوع (جس کو بنایا گیا)اور صنعت (factory)ک...
-
تمہید کہتے ہیں کہ اسلام کے عروج کے دور میں بغداد کے قاضی اپنے شاندار گھوڑے پر سوار بازار میں جا رہے تھے کہ ایک غریب یہودی موچی نے ان کو رو...
-
اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس ساڑھے چودہ سو سال کے عرصہ میں کروڑ ہا خطیبوں ، واعظوں ،مفسروں ،محدثوں ، ادیبوں ، مفکروں ،دانشوروں ، قلم کارو...
-
عورتوں کے لئے ایک خاص تحریر۔ عورت باہر نکلتے ہوئے کن باتوں کا خاص خیال رکھے گی ایک ہلا دینے والی تحریر کوئی عورت ایسی پتھر دل نہیں ہو سکتی ...
-
اللّٰه کے رَسُول صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے قیامت کے نشانات بتلاتے ہوئے فرمایا: کہ اُونٹوں اور بَکریوں کے چَروَاہے جو بَرہَنَہ بَد...
-
تذکرہ موت قرآن میں ! کُلُّ مَنْ عَلَیْھَافَانٍ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔ جو کوئی زمین میں ہے فنا ہونے والا ہ...
-
حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب حقی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندانی پس منظر پشتینی طور پر خدمت علم ودین واشاعت حدیث وسنت رہا ہے ، یہ خاندان بخارا ک...
Sunday, January 15, 2017
شادی کے بعد ناخوشگوار گھریلو حالات کی اک بڑی وجہ
الله اكبر
ہم نمازوں میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہیں. کھبی آپ نے سوچا کہ اللہ اکبر یعنی اللہ سب سے بڑا ہے. اس کا حقیقی مطلب کیا ہے.آئیں اللہ کی بڑائی اور قدرت کی ایک جھلک کا مشاہدہ کریں.
* جس زمین پر ہم رہتے ہیں وہ ایک عام آدمی کے حجم کے مقابلے میں تیس ارب کھرب گنا بڑی ہے.
* جبکہ ہمارا سورج ہماری زمین سے دس لاکھ گنا بڑا ہے.
* اس کے مقابلے میں ایٹاکرانائے نامی مشہور ستارہ ہمارےسورج سےبھی پچاس لاکھ گنا بڑاہے.
* اس کے بعد بیٹل جوس نامی ستارے کا نمبر آتا ہے جو ہمارے سورج سے تیس کروڑ گنا بڑا ہے
* پھر وی وائی کینس میجوریس ستارے کے بڑائی کاتو کیاہی کہنا یہ ہمارے سورج سے ایک ارب گنا بڑا ہے.
* جس کہکشاں میں ہم رہتے ہیں اس کو ملکیوے کہتے ہیں اور صرف اس ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے تین سو ارب سے زائد سورج موجود ہیں.
* اور یہ کہکشاں اتنی بڑی ہے کہ اگر ہم کسی ایسی چیز میں سوار ہو جو ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر سفر طے کرتی ہو یعنی ایک سیکنڈ میں زمین کے سات چکر لگانے والی ہو تو اس کو بھی ہماری کہکشاں پار کرتے کرتے ایک لاکھ سال لگ جائیں گے. اندازہ ہوا نا کہ ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے.
* لیکن نہیں ہم آپ کو اپنی پڑوسی کہکشاں میں لیے چلتے ہیں جس کانام انڈرومیڈا ہے جو ہماری زمین سے دگنی ہے
* لیکن یہ بھی چھوٹی ہے ایم ایٹ ون نامی کہکشاں ہماری کیکشاں سے ساٹھ گنا بڑی ہے
* جبکہ آئی سی ون زیرو ڈبل ون نامی کہکشاں ہماری کہکشاں سے چھ سوگنا بڑی ہے.
* اب سمجھ میں آیا نا کہ اللہ اکبرکا کیا مطلب ہے.
* آییں ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا جس طرح ستاروں سے کہکشائیں بنتی ہے اس طرح کہکشاوں سے کلسٹر بنتے ہیں اور جس کلسٹر میں ہماری کہکشاں واقع ہے اس کوورگوکلسٹرکہتے ہیں اورصرف اس ایک کلسٹر میں 47 ہزار کہکشائیں موجود ہیں.
* اور معاملہ ابھی یہاں ختم نہیں ہوا کلسٹر جب آپس میں ملتے ہیں تو سپر کلسٹر بناتے ہیں اور جس سپر کلسٹر میں ہم رہتے ہیں اس کانام لوکل سپرکلسٹرہے.اس میں قریبا سو کے قریب کلسٹرز ہیں.
* اور اس سپر کلسٹر کی طرح کم وبیش ایک کروڑ سپر کلسٹر ہماری کائنات میں موجود ہیں. جو ایک عظیم جال میں معمولی نقطوں کی مانند آتے ہیں .
اور ان سب کو صرف ایک ذات یعنی اللہ تعالٰی نے بنایا ہے اندازہ ہوا کہ اللہ کتنا بڑا ہے یہی وہ کبریائی ہے جس کو قرآن سورہ زمر میں یوں بیان کرتا ہے.
.''اور انہوں نے اللہ کی قدر ہی نا کی جیسی اس کی قدر کرنے کا حق تھا''. (اور اس کی بڑائی کا یہ حال ہے کہ )''قیامت کے دن زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے سیدھے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہونگے''
(سورہ زمر آیت 67)
یہ ہے اللہ اکبر کا صحیح مطلب اور یہی وہ عظیم جملہ ہے جس کو سننے اور سمجھ لینے کے بعد سوائے انتہائی متکبر کے ہر ایک کا سر سجدے میں چلاجاتاہے.
(اذکارالحق صابر)
مُلکِ شام کے حالات ، امام مہدی كا ظہور اور نبی صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم كی پیشن گوئیاں
اللّٰه کے رَسُول صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے قیامت کے نشانات بتلاتے ہوئے فرمایا: کہ
اُونٹوں اور بَکریوں کے چَروَاہے جو بَرہَنَہ بَدَن اور ننگے پاؤں ہونگے وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے لمبی لمبی عمارتیں بنوائیں گے اور فخر کریں گے۔ (صحیح مسلم 8)
میں ریاض شہر کو دیکھ کر حیران رہ گیا، عمارتوں کایہ مقابلہ آج اپنے عُروج پر پہنچ گیا، دبئی میں ’’برج خلیفہ‘‘ کی عمارت دنیا کی سب سے اُونچی عمارت بن گئی تو ساتھ ہی شہزادہ ولید بن طلال نے جَدَّہ میں اس سے بھی بڑی عمارت بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو دھڑا دھڑ بنتی چلی جا رہی ہے، یعنی مقابلہ اپنی اِنتہا پر پہنچ چکا ہے کہ عرب دنیا کی عمارتیں سارے جہان سے اونچی ہو چکی ہیں۔
بتلانے کا مقصد صرف یہ کہ میرے پیارے رسول حضرت مُحمَّد کریم صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے جو فرمایا وہ پُورا ہو چکا ہے اور پیشگوئی پُوری ہو کر اپنے نُکتۂ کمال کو پہنچ چکی ہے.
اس کے بعد اُصولِ دُنیاوی ’’ہر کمال رَا زَوَال اَست‘‘ کہ ہر کمال کے لئے زوال ہے، زوال کا آغاز بھی ہوچکا ہے کہ گاڑیاں صِرف تیل پر نہیں رہیں بلکہ گیس، بیٹری اور سولر انرجی وغیرہ سے بھی چلنا شروع ہو گئیں۔
تیل دیگر ملکوں سے بھی بہت زیادہ نکلنا شروع ہو گیا اور ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ
عرب کا سب سے زیادہ تیل خریداری کرنے والے امریکہ نے صَدَّام کو ختم کرکے تیل کی دولت سے سَیراب مُلک عِرَاق پر اپنی کٹ پُتلی شِیعَہ حکومت بنا کر تیل کے کنوؤں پر قبضہ جما لیا ہے اور لاکھوں بیرل مُفت وصول کر رہا ہے تو پھر تیل کی گِرتی مانگ نے تیل کی قیمتوں کو نچلی سطح پر پہنچا دیا جس سے عرب ممالک کا سُنہرا دَور خاتمے کے قریب ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے اس زوال کے بعد کیا ہے؟
اللّٰه کے رَسُول صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی ایک اور حدیث ہے کہ قیامت سے پہلے سَرزَمینِ عرب دوبارہ سَرسَبز ہو جائیگی۔۔۔ (صحیح مسلم)
کون سوچ سکتا تھا کہ سَرزمینِ عرب کے صحراء اور خُشک پہاڑ کہ جسے اللّٰه تعالیٰ نے خُود حضرت ابراہیم عَليهِ السَّلام کی زبان سے ’’بِوَادٍ غَیر ذِی زَرع‘‘ بے آب و گیاہ وَادِی قرار دیا۔ وہ سَبزے سے لہلا اٹھے گی......
چُنانچہ پُوری دُنیا میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے نَقَّارے بَجنے لگے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سعودی عرب اور امارات میں بارشیں شروع ہو چکی ہیں۔ اتنی بارشیں اور ہوائیں کہ سیلاب آنا شروع ہو گئے ہیں، مَکَّہ اور جَدَّہ میں سَیلاب آ چکے ہیں۔
ایک سَیلاب چند دن پہلے آیا ہے جس سے چند افراد لُقمۂ اَجَل بھی بن چکے ہیں، اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عرب سرزمین جسے پہلے ہی جدید ٹیکنالوجی کو کام میں لا کر سرسبز بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہ قدرتی موسم کی وجہ سے بھی سرسبز بننے جا رہی ہے۔ سعودی عرب گندم میں پہلے ہی خودکفیل ہو چکا ہے، اب وہاں خشک پہاڑوں پر بارشوں کی وجہ سے سبزہ اُگنا شروع ہو چکا ہے، پہاڑ سرسبز ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے آخرکار حکومت کو ڈیم بنانا ہوں گے جس سے پانی کی نہریں نکلیں گی، ہریالی ہو گی، سبزہ مزید ہو گا، فصلیں لہلہائیں گی، یُوں یہ پیشگوئی بھی اپنے تکمیلی مَرَاحِل سے گزرنے جا رہی ہے اور جو میرے حضور صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے فرمایا اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے جا رہے ہیں.
اگر احادیث پر غور کریں تو مَشرقِ وُسطیٰ کے زوال کا آغاز مُلکِ شام سے شروع ہوا لیکن شاید عرب حُکمران یا تو یہود و نصاریٰ کی چال سمجھ نہ سکے یا بے رخی اختیار کی لیکن وجہ جو بھی ہو یا نہ ہو سرکار صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی بتائی ہوئی علامات کو تو ظاہر ہو نا ہی تھا حدیث کے مطابق
چُنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہے
ﺭﺳﻮﻝ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺟﺐ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ۔
(ﺳﻨﻦ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ 2192: ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻟﺸﺎﻡ، ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ)
یاد ﺭﮐﮭﯿﮟ! ﺍَﺣﺎﺩﯾﺚِ ﻣُﺒَﺎﺭﮐﮧ ﮐﯽ ﺭُﻭ ﺳﮯ ﺷﺎﻡ ﻭ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﺍُﻣَّﺖِ ﻣُﺴﻠﻤﮧ ﮐﺎ ﻣُﺴﺘﻘﺒﻞ ﻭَﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ مُلکِ شام ایسے ہی ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮتے رها ﺗﻮ
ﭘُﻮﺭﯼ ﺍُﻣَّﺖِ ﻣُﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ۔۔ ویسے تو 90 فیصد برباد ہو چکا.........
اب جبکہ پانچ سالہ خُونریزی میں 8 لاکھ سُنّی بےگناه بَچّے، بُوڑھے، عَورتیں شہید اور لا تعداد دُوسرے مُلک کی سرحدوں پر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں اور اتنے ہی تعداد میں زخمی یا معذور ہو چکے
لہٰذا شام مُکمَّل تباہی کے بعد اب نزع کی حالت میں ہے.
اس حدیث کے حساب سے عرب ممالک کے سُنہرے دَور کے خاتمہ کی اہم وجہ مُلکِ شام کے مَوجُودَہ حالات ہيں.
گویا نبی صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی ایک اور پیشگوئی کی عَلامَت ظاہر ہو رہی ہے یا ہو چکی........
یاد رکھیں! کہ مُلکِ شام کے مُتعلّق اِسرائیل، رُوس، ایران و امریکہ جو بھی جھوٹے بہانے بناے لیکن ان سب کا اَصل ہَدَف جَزیرَةُالعَرَب ہے کیونکہ کُفَّار کا عقیدہ ہے کہ دَجَّال مَسِیحَا ہے اس وجہ سے یہ لوگ دَجَّال کے اِنتظامات مُکمَّل کر رہے ہیں جس کے لیے عرب ممالک میں عَدمِ اِستحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ مُلکِ شام پر یہود و نصاریٰ قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہو کر رہیگا حضرت مہدی عَلیهِ السَّلام کے ظہور سے قبل...
چُنانچہ کتابِ فِتَن میں ہے کہ
آخری زمانے میں جب مُسلمان ہر طرف سے مَغلوب ہوجائیں گے، مُسلسل جَنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی، عُلماء کرام سے سُنا کہ سَعُودی، مِصر، ترکی بهى باقى نہ رہیگا ہر جگہ کُفَّار کے مظالم بڑھ جائیں گے، اُمَّت آپسی خَانہ جَنگی کا شِکار رہےگی.
عرب(خلیجی ممالک سعودی عرب وغیرہ) میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہےگی، خَیبَر (سعودی عرب کا چھوٹا شہر مَدینةُالمُنَوَّره سے 170 کم فاصلے پر ہے) کے قریب تک یہود و نصاریٰ پہنچ جائیں گے، اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کھچے مسلمان مَدِینةُالمُنَوَّرَه پہنچ جائیں گے، اس وقت حضرت امام مہدی عَليهِ السَّلام مدینہ منورہ میں ہوں گے،
دُوسری طرف دریائے طبریہ بھی تیزی سے خُشک ہو رہا ہے جو کہ مہدی عَلیہِ السَّلام کے ظہور سے قبل خُشک ہو گی...
اسلئے جب مَشرقِ وُسطیٰ کے حالات کو خُصُوصاً مُسَلمانوں اور ساری دُنیا کے حالات کو دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دُنیا ہولناکیوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔
فرانس میں حَالیہ حَملوں کے بعد فرانس اور پوپ بھی عالمی جنگ کی بات کر چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس عالمی جنگ کا مرکز کون سا خطہ ہو گا...؟ وَاضِح نظر آ رہا ہے، مَشرقِ وُسطیٰ ہی مُتَوَقّع ہے....
یہاں بھی ہند و پاک کی رَنجِشیں اور کشمکش کے بڑھتے حالات سے بھی لگتا ہے کہ غَزوۂ ہند کی طرف رُخ کر رہے ہیں کیونکہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنه سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا:
’’میری قوم کا ایک لشکر وَقتِ آخِر کے نزدیک ہند پر چَڑھائی کرے گا اور اللّٰه اس لشکر کو فتح نصیب کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہند کے حُکمرانوں کو بیڑیوں میں جَکڑ کر لائیں گے۔ اللّٰه اس لشکر کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ پھر وہ لشکر وَاپس رُخ کرے گا اور شام میں موجود عیسیٰ ابنِ مَریم عَليهِ السَّلام کے ساتھ جا کر مِل جائے گا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رَضِىَ اللّٰه تعالىٰ عَنه نے فرمایا،
’’اگر میں اُس وقت تک زندہ رہا تو میں اپنا سب کچھ بیچ کر بھی اُس لشکر کا حِصَّہ بَنُوں گا۔ اور پھر جب اللّٰه ہمیں فتح نصیب کرے گا تو میں ابو ہریرہ (جہنم کی آگ سے) آزاد کہلاؤں گا۔ پھر جب میں شام پہنچوں گا تو عیسیٰ ابنِ مَریم عَليهِ السَّلام کو تلاش کر کے انہیں بتاؤں گا کہ میں مُحَمَّد صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم كا ساتھی رہا ہوں۔‘‘
رسول پاک صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے تَبَسُّم فرمایا اور کہا، ’’بہت مشکل، بہت مشکل‘‘۔
کتاب الفتن۔ صفحہ ۴۰۹
آنے والے اَدوَار بڑے پُرفِتن نظر آتے ہیں اور اس کے مُتعلّق بھی سَرکار صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے فرمایا تھا کہ میری اُمَّت پر ایک دَور ایسے آئیگا جس میں فِتنے ایسے تیزی سے آئینگے جیسے تسبیح ٹوٹ جانے سے تسبیح کے دانے تیزی سے زمین کی طرف آتے ہیں.
لہٰذا اپنی نَسلوں کی ابھی سے تربیت اور ایمان کی فِکر فرمایئے، موبائل كے بےجا استعمال سے, دیر رات تک جاگنے, فیشن اور یہودی انداز اپنانے سے, نمازوں کو تَرک کرنے سے روكئے...
Tuesday, January 10, 2017
عورتوں کے لیے ایک خاص تحریر
عورتوں کے لئے ایک خاص تحریر۔
عورت باہر نکلتے ہوئے کن باتوں کا خاص خیال رکھے گی ایک ہلا دینے والی تحریر کوئی عورت ایسی پتھر دل نہیں ہو سکتی جو یہ باتیں پڑھنے کے بعد بھی پردہ کی پابندی نہ کرے
سب سے بڑی چیز جو ایک مرد کو عورت کی طرف یا عورت کو مرد کی طرف مائل کرنے والی ہے وہ نظر ہے۔
قرآن پاک میں دونوں فریق کو حکم دیا ہے کہ اپنی نظریں پست رکھیں ۔ سورہ نور، رکوع نمبر چار میں اول مردوں کو حکم فرمایا: ” آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے ۔ بے شک الله تعالیٰ اس سے خوب باخبر ہے، جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔“
اس کے بعد عورتوں کو خطاب فرمایا:” اور مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر یہ کہ مجبوری سے خود کھل جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنے حسن و جمال کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں ( سوائے ان کے جو شرعاَ محروم ہیں) اور مسلمانوں ( تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہو تو ) تم سب الله تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔“ ( سورہ نور،آیت نمبر31)
الله عزوجل سورہ احزاب آیت 33
تفسیر
” اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتیں اور اپنے بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں۔ اس بد اخلاقی اور بےحیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کر سکتا ہے؟ اسلام نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہریں اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر اپنے حسن وجمال کی نمائش نہ کرتی پھریں۔“
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے اور بلاشبہہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان دیکھنے لگتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ سے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے ۔ ( الترغیب والترہیب للمنذری 626 از طبرانی)
تشریح: اس حدیث میں اول تو عورت کا مقام بتایا ہے یعنی یہ کہ وہ چھپا کر رکھنے کی چیز ہے۔ عورت کو بحیثیت عورت گھر کے اندر رہنا لازم ہے، جوعورت پردہ سے باہر پھرنے لگے وہ حدود نسوانیت سے باہر ہو گئی۔ اس کے بعد فرمایا کہ عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیتا ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ جب عورت باہر نکلے گی تو شیطان کی یہ کوشش ہو گی کہ لوگ اس کے خدوخال اور حسن وجمال اور لباس و پوشاک پر نظر ڈال ڈال کر لطف اندوز ہوں ۔ اس کے بعد فرمایا کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ کے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ گھر کے اندر ہوتی ہے جن عورتوں کو الله تعالیٰ کی نزدیکی کی طلب اور رغبت ہے وہ گھر کے اندر ہی رہنے کو پسند کرتی ہیں اور حتی الامکان گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہیں۔
اسلام نے عورتوں کو ہدایت دی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو عورتیں اپنے گھر کے اندر ہی رہیں کسی مجبوری سے باہر نکلنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس میں متعدد پابندیاں لگائی گئی ہیں مثلاً یہ کہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں اور یہ بھی حکم فرمایا کہ عورت راستے کے درمیان نہ چلے بلکہ راستے کے کنارے پر چلے ،
مردوں کے ہجوم ( رش یا بھیڑ) میں داخل نہ ہو ۔ اگر اسے باہر جانا ہی پڑے تو پورے بدن پر برقعہ یا لمبی موٹی یا گہرے رنگ والی چادر لپیٹ کر چلے
( راستہ نظر آنے کے لیے ایک آنکھ کا کھلا رہنا کافی ہے ) یا برقعہ میں جو جالی آنکھوں کے سامنے استعمال کی جاتی ہے وہ لگا لیں یا برقعہ یا چادر اس طرح اوڑھ لیں کہ ماتھے تک بال وغیرہ ڈھک جائے اور نیچے سے چہرہ ناک تک چھپ جائے۔ صرف دونوں آنکھیں
( راستہ نظر آنے کے لیے ) کھلی رہیں ۔ آج کل جوان لڑکیاں برائے نام چادر اوڑھ لیتی ہیں اور چادر بھی باریک چکن کی ہوتی ہے اور تنگ بھی ، اس سے ہرگز شرعی پردہ نہیں ہوتا اور ان کا اس چادر کے ساتھ باہر نکلنا بے پردہ نکلنے کی طرح ہے، جو سراسر ناجائز اور حرام ہے .
قرآن کریم میں جس چادر کا ذکر ہے، اس سے ہرگز ایسی چادر مراد نہیں۔ عورتیں جب گھر سے کسی مجبوری کی وجہ سے نکلیں تو بجنے والا کوئی زیور نہ پہنا ہو ۔ کسی غیر محرم سے اگر ضروری بات کرنی پڑے تو بہت مختصر کریں، ہاں ناں کا جواب دے کر ختم کر ڈالیں ۔
گفتگو کے انداز میں نزاکت اور لہجہ میں جاذبیت کے طریقے پر بات نہ کریں ۔ جس طرح چال ڈھال اور رفتار کے انداز دل کھنچتے ہیں اسی طرح گفتار ( باتوں) کے نزاکت والے انداز کی طرف بھی کشش ہوتی ہے ۔
عورت کی آواز میں طبعی اور فطری طور پر نرمی اور لہجہ میں دل کشی ہوتی ہے ۔ پاک نفس عورتوں کی یہ شان ہے کہ غیر مردوں سے بات کرنے میں بتکلف ایسا لب و لہجہ اختیار کریں جس میں خشونیت اور روکھا پن ہو، جیسے کہ ” بے تکلف ایسا لہجہ بنائے کہ سننے والا یوں محسوس کرے کہ کوئی چڑیل بول رہی ہے۔
تاکہ کسی بدباطن کا قلبی میلان نہ ہونے پائے اور عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے، محرم بھی وہ ہو جس پر بھروسہ ہو۔ فاسق محرم جس پر اطمینان نہ ہو اس کے ساتھ سفر کرنا درست نہیں ہے ۔ اسی طرح شوہر یا محرم کے علاوہ کسی نامحرم مرد کے ساتھ تنہائی میں رہنے یا رات گزارنے کی بالکل اجازت نہیں ہے اور محرم بھی وہ جس پر اطمینان ہو ۔ یہ سب احکام درحقیقت عفت وعصمت محفوظ رکھنے کے لیے دیے گئے ہیں-
#پردہ #عورت #اسلام #حقوق #حجاب #مسلمہ
#Women #Hijab #Pardah #Islam #Muslimah