Popular Posts

Thursday, March 23, 2023

سورہ فاتحہ

سورہ فاتحہ 

تعارفی باتیں:
 یہ پوری سورت مکی ہے ۔
اس میں سات آیات اور ایک رکوع ہے ۔
یہ سورت قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے ۔
مکمل نازل ہونے والی سورتوں میں بھی سب سے پہلی سورت یہی ہے ۔
اس میں سیدھے راستے کی جو دعامانگی گئی ہے پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ
سیدھا راستہ ہے کیا؟
(از آسان ترجمه قرآن ۳۶/۱)
سورۂ فاتحہ فضائل:
احادیث سے ثابت ہے کہ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالی نے شفارکھی ہے ۔
(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن ، باب فضل فاتحة الكتاب الرقم (۲۷۲)
ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، اچا نک آپ نے اوپر سے کوئی تیز آواز سنی ، آپ نے سر مبارک اٹھا یا ۔
جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : ” یہ آسمان پر ایک دروازہ کھلنے کی آواز ہے، جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا ، اس میں سے ایک فرشتہ زمین پر اترا ہے جو آج سے پہلے کبھی زمین پرنہیں اترا، اور وہ فرشتہ کہہ رہا ہے کہ میں ایسے دونوروں کو خوشخبری لایا ہوں جو آپ سےپہلے کسی کو عطا نہیں کیے گئے ، ایک سورہ فاتحہ اور دوسرا سورہ کا بقرہ کی آخری آیات ، آپ جب بھی ان کی تلاوت کریں گے آپ کو یہ چیزیں ضرور عطا کی جائیں گی ( جو سورہ فاتحہ میں ہے جیسے ہدایت اور سورہ البقرہ کی آخری آیات میں ہے جیسے مغفرت ) ۔
صحيح مسم كتاب صرة المسافرين باب فضل الفاتحة وخواتيم سورة البقرة الرقم
جب بندہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے ہر آیت کا
جواب دیا جا تا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
” اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آ دھا
آدھا تقسیم کردیا ہے اور بندہ اس چیز کامستحق ہے جو وہ مجھ سے مانگتا ہے ، جب بندہ کہتا
الحمد لله رب العلمين 
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
حمدني عبدی۔‘‘
میرے بندے نے میری تعریف کی ۔“
اور جب بندہ کہتا ہے:
الرحمن الرحيم 
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
اثنی علی عبدی۔‘‘
”میرے بندے نے میری ثنا بیان کی ۔“
اور جب بندہ کہتا ہے:
مالك يوم الدين  ‘‘
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
مجدني عبدئ۔“
میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی “
اور جب بندہ کہتا ہے:
" إياك نعبد وإياك نستعين -
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سال۔‘‘
یہ بات میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندہ اس چیز کا مستحق ہے جو وہ مانگے “
اور جب بندہ کہتا ہے :
"إهدنا الضراط المستقيم و صراط الذين أنعمت عليهم
المغضوب عليهم ولا الضالين 
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"هذا لعبدي ولعبدي ما سال ۔‘‘
یہ میرے بندے کو ملے گا اور میرا بندہ اس چیز کا مستحق ہے جو وہ مجھ سے مانگے ۔
(صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة الرقم 603)
مسائل:
(سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالی سے دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے کہ پہلے اللہ تعالی کی حمد وثنا کی جائے ، پھر اللہ کی عبادت اور اپنی بے بسی کا اعتراف ، پھر ہدایت اور دیگر ضروریات کی دعا مانگی جاۓ ۔
احكام القرآن للجصاص ۳۲/۱ دار الكتاب كوئته)
اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت جائز نہیں ہے،عبادت میں اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نہ کسی کی محبت اللہ تعالی کے برابر ہو، نہ کسی کاخوف اس کے برابر ہو، نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو، نہ کسی پر بھروسا اللہ کے مثل ہو، نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا اللہ تعالی کی عبادت کو، نہ اللہتعالی کی طرح کسی کی نذر اور منت مانے ، نہ اللہ تعالی کی طرح کسی دوسرے کے سامنےاپنی مکمل عاجزی اور تذلل کا اظہار کرے ، نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لیے کرے جوانتہائی تذلیل کی علامات ہیں جیسے رکوع و سجدہ۔
(معارف القرآن ا ادارة المعارف ۵۱۳۴۱)
مختار مطلق سمجھ کر صرف اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہیے۔

(معارف القرآن للشفيع ، ۱ ۱۰۲ ادارة المعارف۵۱۳۲۱)
اللہ کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل نا جائز ہے ، ہاں اگر کسی مقبول بندہ کومحض واسطه رحمت الہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے
کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالی ہی سے استعانت ہے ۔ ( تفسیر عثمانی )
ہر کام میں حقیقی مد داللہ ہی سے مانگنی چاہیے کیونکہ صحیح معنی میں کارساز اس کے سوا کوئی نہیں ۔ دنیا کے بہت سے کاموں میں بعض اوقات کسی انسان سے جو مدد مانگی جاتی ہے وہ اسے کارساز سمجھ کر نہیں بلکہ ایک ظاہری سبب سمجھ کر مانگی جاتی ہے ۔ ( آسان ترجمہ قرآن )
اس سورت کے ختم پر لفظ آمین کہنا مسنون ہے ۔ ( تفسیر عثمانی )
ماخوذ از گلدستہ قرآن کریم مؤلف محمد اسامہ سرسری

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here