Popular Posts

Tuesday, September 28, 2021

بسم ‏الله ‏الرحمن ‏الرحيم ‏ ‏کی ‏تفسیر ‏ ‏( ‏معارف ‏القرآن ‏)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں
اس پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  قرآن میں سورت نمل کا جزو ہے ۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ سوائے سورت توبہ کے ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ لکھی جاتی ہے، اس میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے کہ بسم اللہ سورت فاتحہ کا یا تمام سورتوں کا جزء ہے یا نہیں ؟ امام اعظم ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ بجز سورت نمل کے کسی اور سورت کا جزء نہیں بلکہ ایک مستقل آیت ہے جو ہر سورت کے شروع میں دو سورتوں کے درمیان فصل اور امتیاز ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔
اہل جاہلیت کی عادت تھی کہ اپنے کاموں کو بتوں کے نام سے شروع کیا کرتے تھے، اس رسم جاہلیت کو مٹانے کے لئے قرآن کی سب سے پہلی آیت جو جبریل امین لے کر آئے اس میں قرآن کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا : اقرابسم ربك (العلق:١) ترجمہ: پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر 
علامہ سیوطی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا قرآن کے سوا تمام آسمانی کتابیں بھی بسم اللہ  سے شروع کی گئی ہیں اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم  قرآن اور امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابتدا میں ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کے لئے "باسمك اللهم " کہتے اور لکھتے تھے جب آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم  نازل ہوئی تو انھی الفاظ کو اختیار فرمایا لیا اور ہمیشہ کے لئے یہ سنت جاری ہو گئ (قرطبی ج١ ص٩٢ -  روح المعانی ج١ ص١)
قرآن کریم میں جا بجا اس کی ہدایت ہے کہ ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کیا جائے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مہم کام جو اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت رہتا ہے 
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ گھر کا دروازہ بند کرو تو بسم اللہ کہو،چراغ گل کرو تو بسم اللہ کہو،برتن ڈھکو تو بسم اللہ کہو،کھانا کھانے، پانی پینے،وضو کرنے،سواری پر سوار ہونے اور اترنے کے وقت بسم اللہ پڑھنے کی ہدایت قرآن و حدیث میں بار بار آئی ہے (قرطبی ج١ ص ٩٧)
ہر کام کو بسم اللہ سے شروع کرنے کی حکمت 
اسلام نے ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت دے کر انسان کی پوری زندگی کا رخ اللہ تعالٰی کی طرف اس طرح پھیر دیا ہے کہ کہ وہ قدم قدم پر اس حلف وفاداری کی تجدید کرتا رہے کہ میرا وجود اور میرا کوئی کام بغیر اللہ تعالٰی کہ مشیت اور ارادے اور اس کی امداد کے نہیں ہو سکتا، جس نے اس کی ہر نقل و حرکت اور تمام معاشی اور دینی کاموں کو بھی ایک عبادت بنا دیا ۔
عمل کتنا مختصر ہے کہ نہ اس میں کوئی وقت خرچ ہوتا ہے نہ محنت، اور فائدہ کتنا کیمیاوی اور بڑا ہے کہ دنیا بھی دیں بن گئی۔ایک کافر بھی کھاتا پیتا ہے اور ایک مسلمان بھی، مگرمسلمان اپنے لقمے سے پہلے بسم اللہ کہ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ لقمہ زمین سے پیدا ہونے سے لے کر پک کر تیار ہونے تک آسمان و زمین اور سیاروں ہوا و فضائی مخلوقات کی طاقتیں، پھر لاکھوں انسانوں کی محنت صرف ہو کر تیار ہوا ہے،اس کا حاصل کرنا میرے بس میں نہ تھا،اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان تمام مراحل سے گزار کر یہ لقمہ یا گھونٹ مجھے عطا فرمایا، مومن اور کافر دونوں سوتے جاگتے بھی ہیں، چلتے پھرتے بھی ہیں، مگر مومن سونے سے پہلے اور بیدار ہونے کے وقت اللہ کا نام لے کر اللہ کے ساتھ اسی طرح اپنے رابطے کی تجدید کرتا ہےجس سے یہ تمام دنیاوی اور معاشی ضرورتیں ذکر خدا بن کر عبادت میں لکھی جاتی ہیں۔مومن سواری پر سوار ہوتے ہوئے بسم اللہ کہ کر یہ گویا یہ شہادت دیتا ہے کہ اس سواری کا پیدا کرنا یا مہیا کرنا، پھر اس کو میرے قبضے میں دےدیناانسان کی قدرت سے باہر کی چیز ہے، رب العزت کے بنائے ہوئے نظام محکم کا کام ہےکہ کہیں کی لکڑی  کہیں کا لوہا، کہیں کی مختلف دھاتیں، کہیں کے کاریگر  کہیں کے چلانے والے سب کے سب میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں، چند پیسے خرچ کرنے سے اتنی بڑی خلق خدا کی محنت کو ہم اپنے کام میں لا سکتے ہیں، اور وہ پیسے بھی ہم اپنے ساتھ کہیں سے نہیں لائے تھے، بلکہ اس کے حاصل کرنے کے تمام اسباب بھی اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں غور کیجئے کہ اسلام کی صرف اسی ایک ہی مختصر سی تعلیم نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، اس لیے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ ایک نسخہ اکسیر ہے جس سے تانبے کا نہیں بلکہ خاک کا سونا بنتا ہے ، فلله الحمد على دين الإسلام وتعليماته 
مسئلہ:- قرآن کی تلاوت شروع کرنے کے وقت اول اعوذباللہ من الشيطن الرجيم اور پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے  
اس تمہید کے بعد آیت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی تفسیر دیکھئے 
بسم اللہ 
یہ کلمہ تین لفظوں کا مرکب ہے ،ایک حرف باء،دوسرے اسم،تیسرے اللہ۔حرف باء عربی میں بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوتی ہے ،جن میں سے تین معانی مناسب مقام ہیں، ان میں سے ہر ایک معانی اس جگہ لئے جا سکتے ہیں:۔
اول مصاحبت،یعنی کسی چیز کا کسی چیز سے متصل ہونا۔دوسرے: استعانت، یعنی کسی چیز سے مدد حاصل کرنا۔ تیسرے: تبرک،یعنی کسی چیز سے برکت حاصل کرنا 
لفظ اسم میں لغوی اور علمی تفصیلات بہت ہیں، جن کا جاننا عوام کے لئے ضروری نہیں، اتنا سمجھ لینا کافی ہے اردو میں اس کا ترجمہ نام سے کیا جاتا ہے۔
لفظ اللہ،  اللہ تعالٰی کے ناموں میں سب سے بڑا اور سب سے جامع نام ہے،اور بعض علماء نے اسی کو اسم اعظم کہا ہے، اور یہ نام اللہ کے سوا کسی اور کا نہیں ہو سکتا،اس لیے اس لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتے،کیونکہ اللہ واحد ہے،اس کا کوئی شریک نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نام ہے اس میں موجود حق کا جو تمام صفات کمال کا جامع اور صفات ربوبیت کے ساتھ متصف،یکتا اور بے مثال ہے۔
اس لئے کلمہ بسم اللہ کے معنی حرف باء کے مذکورہ تین معنی کی ترتیب سے یہ ہوئے:-
اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کے نام کی مدد سے، اللہ کے نام کی برکت سے
لیکن تینوں صورتوں میں یہ ظاہر ہے کہ یہ کلام نا مکمل ہے،جب تک اس کام کا ذکر نہ کیا جائے جو اللہ کے نام کے ساتھ یا اس کے نام کی برکت سے کرنا مقصود ہے،اس لئے نحوی قاعدے کے مطابق یہاں کوئی فعل مناسب مقام محذوف ہوتا ہے، مثلا "شروع کرتا ہوں یا پڑھتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ "
اور مناسب یہ ہے کہ یہ فعل بھی بعد میں محذوف مانا جائے، تا کہ حقیقی طور پر شروع اللہ کے نام سے ہی ہو،وہ فعل محذوف بھی اسم اللہ سے پہلے نہ آئے، صرف حرف باء کا اسم اللہ سے پہلے آنا عربی زبان کے لحاظ سے ضروری و ناگزیر ہے،اس میں بھی مصحف عثمانی میں باجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین یہ رعایت رکھی گئی ہےکہ حرف باء رسم الخط کے قاعدے سے الف کے ساتھ ملا کر لکھنا چاہیے تھا اور لفظ اسم الگ جس کی صورت ہوتی: باسم اللہ،  لیکن مصحف عثمانی کے رسم الخط میں حرف  ہمزہ کو حذف کر کے حرف باء کو سین کے ساتھ ملا کر صورة "اسم" کا جزء بنا دیا، تاکہ شروع اسم اللہ سے ہو جائے یہی وجہ ہے کہ دوسرے مواقع میں حرف الف حذف نہیں کیا جاتا،  اقرابسم ربك(العلق:١)میں ب کو الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے یہ صرف بسم اللہ کی خصوصیت ہےکہ باء کو سین کے ساتھ ملا دیا گیا ہے ۔
الرحمٰن الرحیم:- یہ دونوں اللہ تعالٰی کی صفات ہیں،  رحمان کے معنی عام الرحمة کے اور رحیم کے معنی تام الرحمة کے ہیں عام الرحمتہ سے مطلب وہ ذات جس کی رحمت سارے عالم اور ساری کائنات اور جو کچھ اب تک پیدا ہوا ہے اور جو کچھ ہو گا سب پر حاوی اور شامل ہو اور تام الرحمتہ کا مطلب ہے کہ اس کی رحمت کامل و مکمل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ لفظ رحمان اللہ جل شانہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے کسی شخص کو رحمان کہنا جائز نہیں کیوں کہ  اللہ تعالٰی کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہو سکتا جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہ رہے اسی لیے جس طرح لفظ اللہ کا جمع اور تثنیہ نہیں آتا رحمان کا بھی جمع اور تثنیہ نہیں آتا کیونکہ وہ ایک ہی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے اور تیسرے کا وہاں احتمال نہیں بخلاف لفظ رحیم کے کہ اس کے معنی میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا پایا جانا مخلوق میں نا ممکن ہو کیونکہ ہو سکتا ہو کوئی شخص کسی شخص سےپوری پوری رحمت کا معاملہ کرے ۔
اسی لئے لفظ رحیم انسان کے لئے بھی بولا جا سکتا ہے قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لئے بھی یہ لفظ استعمال فرمایا ہے : بالمؤمنين رءوف رحيم (التوبة )
ترجمہ مومنوں کے لئے انتہائی شفیق ،نہایت مہربان ہے!
مسئلہ:- اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آج کل عبدالرحمن " فضل الرحمن " وغیرہ ناموں میں تخفیف کر کے رحمان کہتے ہیں، اور اس شخص کو اس لفظ سے خطاب کرتے ہیں، یہ ناجائز اور گناہ ہے۔
حکمت (بسم اللہ) 
بسم اللہ میں اللہ تعالٰی کے اسمائے حسنا اور صفات کمال میں سے صرف دو صفتیں ذکر کی گئی ہیں، اور وہ دونوں لفظ رحمت سے مشتق ہیں، اور وسعت رحمت اور کمال رحمت پر دلالت کرنے والی ہیں، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تخلیق عالم اور آسمان، زمین اور تمام کائنات کے پیدا کرنے اور ان کو پالنے وغیرہ کا منشا اللہ تعالٰی کی صفات رحمت سے ہے،نہ اس کو ان چیزوں کی خود ضرورت تھی نہ کوئی دوسرا ان چیزوں کو پیدا کرنے پر مجبور کرنے والا تھا،صرف اسی کی رحمت کے تقاضے سے یہ ساری چیزیں اور ان کی پرورش کے سارے انتظامات وجود میں آئے ہیں۔
احکام و مسائل 
مسئلہ تعوذ:- تعوذ کے معنی ہیں اعوذباللہ من الشيطن الرجيم پڑھنا،قرآن کریم میں ارشاد ہے: فاذاقرات القران فاستعز بالله من الشيطان الرجيم(النحل) یعنی جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو اللہ سے پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے "
قرآت قرآن سے پہلے تعوذ پڑھنا با جماع امت سنت ہے، خواہ تلاوت قرآن کے اندر ہو یا خارج نماز(شرح منیة ص٣٠٣،٣٠٤) تعوذ پڑھنا تلاوت قرآن کے ساتھ مخصوص ہے، علاوہ تلاوت دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم اللہ پڑھی جائے، تعوذ مسنون نہیں ہے(عالمگیری ج٥ ص٣١٦)
جب قرآن شریف کی تلاوت کی جائے اس وقت اعوذباللہ اور باسم اللہ دونوں پڑھی جائیں، درمیان تلاوت جب ایک سورت ختم ہو کر دوسری شروع ہو تو سورت براءت کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں مکرر بسم اللہ پڑھی جائے، اعوذباللہ نہیں، اور سورت براءت اگر درمیان تلاوت آ جائے تو اس پر بسم اللہ نہ پڑھے ، اور اگر قرآن کی تلاوت سورت براءت سے ہی شروع کر رہا ہے تو اس کے شروع میں اعوذباللہ اور بسم اللہ پڑھنا چاہئے۔ عالمگیر ج ٥ ص٣١٦
احکام بسم اللہ:-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  قرآن مجید میں سورت نمل میں آیت کا جزو ہے ،اور ہر دو سورتوں کے درمیان مستقل آیت ہے،اس لئے اس کا احترام قرآن مجید ہی کی طرح واجب ہے، اس کو بے وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔اور جنابت یا حیض نفاس کی حالت میں اس کو بطور تلاوت پڑھنا بھی پاک ہونے سے پہلے جائز نہیںہاں کسی کام کے شروع میں، جیسے کھانے پینے سےپہلے بطور دعا پڑھنا ہر حال میں جائز ہے (شرح منیہ کبیر ص ٥٧)
مسئلہ:۔ پہلی رکعت میں اعوذباللہ کے بعد بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے، البتہ اس میں اختلاف ہےکہ آواز سے پڑھا جائے یا آہستہ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ اور بہت سے دوسرے آئمہ آہستہ پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں 
پہلی رکعت کے بعد دوسری دو رکعتوں کے شروع میں بھی بسم اللہ پڑھنی چاہیےاس کے مسنون ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور بعض روایات میں ہر رکعت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کو واجب کہا گیا ہے(شرح منیہ ص٣٠٦)
مسئلہ:۔ نماز میں سورت فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھنا چاہئے، خواہ جہری نماز ہو یا سری،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے ثابت نہیں ہے ، شرح منیہ میں اسی کو امام ابو حنیفہ اور  امام ابو یوسف  رحمت اللہ علیہ کا قول لکھا ہے( شرح منيه ص ٣٠٨،٣٠٩)اور شرح منیہ، درمختار، برہان وغیرہ میں اسی کو ترجیح ہے، مگر امام محمد رحمت اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ سری نمازوں میں پڑھنا بہتر ہے، بعض روایات میں یہ قول امام ابو حنیفہ  رحمت اللہ علیہ کی ظرف بھی منسوب کیا گیا ہے اور شامی نے بعض فقہاء سے اس کی ترجیح بھی نقل کی ہے،  "بہشتی زیور" (حصہ دوم صفحہ 20) میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ کوئی پڑھ لے تو مکروہ نہیں (شامی ج1 ص 490)
معارف القرآن ج١ ص٨٦،٨٧،٨٨،٨٩،٩٠

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here