Popular Posts

Thursday, March 23, 2023

سورہ فاتحہ

سورہ فاتحہ 

تعارفی باتیں:
 یہ پوری سورت مکی ہے ۔
اس میں سات آیات اور ایک رکوع ہے ۔
یہ سورت قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے ۔
مکمل نازل ہونے والی سورتوں میں بھی سب سے پہلی سورت یہی ہے ۔
اس میں سیدھے راستے کی جو دعامانگی گئی ہے پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ
سیدھا راستہ ہے کیا؟
(از آسان ترجمه قرآن ۳۶/۱)
سورۂ فاتحہ فضائل:
احادیث سے ثابت ہے کہ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالی نے شفارکھی ہے ۔
(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن ، باب فضل فاتحة الكتاب الرقم (۲۷۲)
ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، اچا نک آپ نے اوپر سے کوئی تیز آواز سنی ، آپ نے سر مبارک اٹھا یا ۔
جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : ” یہ آسمان پر ایک دروازہ کھلنے کی آواز ہے، جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا ، اس میں سے ایک فرشتہ زمین پر اترا ہے جو آج سے پہلے کبھی زمین پرنہیں اترا، اور وہ فرشتہ کہہ رہا ہے کہ میں ایسے دونوروں کو خوشخبری لایا ہوں جو آپ سےپہلے کسی کو عطا نہیں کیے گئے ، ایک سورہ فاتحہ اور دوسرا سورہ کا بقرہ کی آخری آیات ، آپ جب بھی ان کی تلاوت کریں گے آپ کو یہ چیزیں ضرور عطا کی جائیں گی ( جو سورہ فاتحہ میں ہے جیسے ہدایت اور سورہ البقرہ کی آخری آیات میں ہے جیسے مغفرت ) ۔
صحيح مسم كتاب صرة المسافرين باب فضل الفاتحة وخواتيم سورة البقرة الرقم
جب بندہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے ہر آیت کا
جواب دیا جا تا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
” اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آ دھا
آدھا تقسیم کردیا ہے اور بندہ اس چیز کامستحق ہے جو وہ مجھ سے مانگتا ہے ، جب بندہ کہتا
الحمد لله رب العلمين 
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
حمدني عبدی۔‘‘
میرے بندے نے میری تعریف کی ۔“
اور جب بندہ کہتا ہے:
الرحمن الرحيم 
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
اثنی علی عبدی۔‘‘
”میرے بندے نے میری ثنا بیان کی ۔“
اور جب بندہ کہتا ہے:
مالك يوم الدين  ‘‘
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
مجدني عبدئ۔“
میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی “
اور جب بندہ کہتا ہے:
" إياك نعبد وإياك نستعين -
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"هذا بيني وبين عبدي ولعبدي ما سال۔‘‘
یہ بات میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندہ اس چیز کا مستحق ہے جو وہ مانگے “
اور جب بندہ کہتا ہے :
"إهدنا الضراط المستقيم و صراط الذين أنعمت عليهم
المغضوب عليهم ولا الضالين 
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"هذا لعبدي ولعبدي ما سال ۔‘‘
یہ میرے بندے کو ملے گا اور میرا بندہ اس چیز کا مستحق ہے جو وہ مجھ سے مانگے ۔
(صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة الرقم 603)
مسائل:
(سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالی سے دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے کہ پہلے اللہ تعالی کی حمد وثنا کی جائے ، پھر اللہ کی عبادت اور اپنی بے بسی کا اعتراف ، پھر ہدایت اور دیگر ضروریات کی دعا مانگی جاۓ ۔
احكام القرآن للجصاص ۳۲/۱ دار الكتاب كوئته)
اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت جائز نہیں ہے،عبادت میں اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نہ کسی کی محبت اللہ تعالی کے برابر ہو، نہ کسی کاخوف اس کے برابر ہو، نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو، نہ کسی پر بھروسا اللہ کے مثل ہو، نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا اللہ تعالی کی عبادت کو، نہ اللہتعالی کی طرح کسی کی نذر اور منت مانے ، نہ اللہ تعالی کی طرح کسی دوسرے کے سامنےاپنی مکمل عاجزی اور تذلل کا اظہار کرے ، نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لیے کرے جوانتہائی تذلیل کی علامات ہیں جیسے رکوع و سجدہ۔
(معارف القرآن ا ادارة المعارف ۵۱۳۴۱)
مختار مطلق سمجھ کر صرف اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہیے۔

(معارف القرآن للشفيع ، ۱ ۱۰۲ ادارة المعارف۵۱۳۲۱)
اللہ کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل نا جائز ہے ، ہاں اگر کسی مقبول بندہ کومحض واسطه رحمت الہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے
کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالی ہی سے استعانت ہے ۔ ( تفسیر عثمانی )
ہر کام میں حقیقی مد داللہ ہی سے مانگنی چاہیے کیونکہ صحیح معنی میں کارساز اس کے سوا کوئی نہیں ۔ دنیا کے بہت سے کاموں میں بعض اوقات کسی انسان سے جو مدد مانگی جاتی ہے وہ اسے کارساز سمجھ کر نہیں بلکہ ایک ظاہری سبب سمجھ کر مانگی جاتی ہے ۔ ( آسان ترجمہ قرآن )
اس سورت کے ختم پر لفظ آمین کہنا مسنون ہے ۔ ( تفسیر عثمانی )
ماخوذ از گلدستہ قرآن کریم مؤلف محمد اسامہ سرسری

Tuesday, September 28, 2021

بسم ‏الله ‏الرحمن ‏الرحيم ‏ ‏کی ‏تفسیر ‏ ‏( ‏معارف ‏القرآن ‏)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں
اس پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  قرآن میں سورت نمل کا جزو ہے ۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ سوائے سورت توبہ کے ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ لکھی جاتی ہے، اس میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے کہ بسم اللہ سورت فاتحہ کا یا تمام سورتوں کا جزء ہے یا نہیں ؟ امام اعظم ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ بجز سورت نمل کے کسی اور سورت کا جزء نہیں بلکہ ایک مستقل آیت ہے جو ہر سورت کے شروع میں دو سورتوں کے درمیان فصل اور امتیاز ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔
اہل جاہلیت کی عادت تھی کہ اپنے کاموں کو بتوں کے نام سے شروع کیا کرتے تھے، اس رسم جاہلیت کو مٹانے کے لئے قرآن کی سب سے پہلی آیت جو جبریل امین لے کر آئے اس میں قرآن کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا : اقرابسم ربك (العلق:١) ترجمہ: پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر 
علامہ سیوطی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا قرآن کے سوا تمام آسمانی کتابیں بھی بسم اللہ  سے شروع کی گئی ہیں اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم  قرآن اور امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابتدا میں ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کے لئے "باسمك اللهم " کہتے اور لکھتے تھے جب آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم  نازل ہوئی تو انھی الفاظ کو اختیار فرمایا لیا اور ہمیشہ کے لئے یہ سنت جاری ہو گئ (قرطبی ج١ ص٩٢ -  روح المعانی ج١ ص١)
قرآن کریم میں جا بجا اس کی ہدایت ہے کہ ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کیا جائے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مہم کام جو اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت رہتا ہے 
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ گھر کا دروازہ بند کرو تو بسم اللہ کہو،چراغ گل کرو تو بسم اللہ کہو،برتن ڈھکو تو بسم اللہ کہو،کھانا کھانے، پانی پینے،وضو کرنے،سواری پر سوار ہونے اور اترنے کے وقت بسم اللہ پڑھنے کی ہدایت قرآن و حدیث میں بار بار آئی ہے (قرطبی ج١ ص ٩٧)
ہر کام کو بسم اللہ سے شروع کرنے کی حکمت 
اسلام نے ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت دے کر انسان کی پوری زندگی کا رخ اللہ تعالٰی کی طرف اس طرح پھیر دیا ہے کہ کہ وہ قدم قدم پر اس حلف وفاداری کی تجدید کرتا رہے کہ میرا وجود اور میرا کوئی کام بغیر اللہ تعالٰی کہ مشیت اور ارادے اور اس کی امداد کے نہیں ہو سکتا، جس نے اس کی ہر نقل و حرکت اور تمام معاشی اور دینی کاموں کو بھی ایک عبادت بنا دیا ۔
عمل کتنا مختصر ہے کہ نہ اس میں کوئی وقت خرچ ہوتا ہے نہ محنت، اور فائدہ کتنا کیمیاوی اور بڑا ہے کہ دنیا بھی دیں بن گئی۔ایک کافر بھی کھاتا پیتا ہے اور ایک مسلمان بھی، مگرمسلمان اپنے لقمے سے پہلے بسم اللہ کہ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ لقمہ زمین سے پیدا ہونے سے لے کر پک کر تیار ہونے تک آسمان و زمین اور سیاروں ہوا و فضائی مخلوقات کی طاقتیں، پھر لاکھوں انسانوں کی محنت صرف ہو کر تیار ہوا ہے،اس کا حاصل کرنا میرے بس میں نہ تھا،اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان تمام مراحل سے گزار کر یہ لقمہ یا گھونٹ مجھے عطا فرمایا، مومن اور کافر دونوں سوتے جاگتے بھی ہیں، چلتے پھرتے بھی ہیں، مگر مومن سونے سے پہلے اور بیدار ہونے کے وقت اللہ کا نام لے کر اللہ کے ساتھ اسی طرح اپنے رابطے کی تجدید کرتا ہےجس سے یہ تمام دنیاوی اور معاشی ضرورتیں ذکر خدا بن کر عبادت میں لکھی جاتی ہیں۔مومن سواری پر سوار ہوتے ہوئے بسم اللہ کہ کر یہ گویا یہ شہادت دیتا ہے کہ اس سواری کا پیدا کرنا یا مہیا کرنا، پھر اس کو میرے قبضے میں دےدیناانسان کی قدرت سے باہر کی چیز ہے، رب العزت کے بنائے ہوئے نظام محکم کا کام ہےکہ کہیں کی لکڑی  کہیں کا لوہا، کہیں کی مختلف دھاتیں، کہیں کے کاریگر  کہیں کے چلانے والے سب کے سب میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں، چند پیسے خرچ کرنے سے اتنی بڑی خلق خدا کی محنت کو ہم اپنے کام میں لا سکتے ہیں، اور وہ پیسے بھی ہم اپنے ساتھ کہیں سے نہیں لائے تھے، بلکہ اس کے حاصل کرنے کے تمام اسباب بھی اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں غور کیجئے کہ اسلام کی صرف اسی ایک ہی مختصر سی تعلیم نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، اس لیے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ ایک نسخہ اکسیر ہے جس سے تانبے کا نہیں بلکہ خاک کا سونا بنتا ہے ، فلله الحمد على دين الإسلام وتعليماته 
مسئلہ:- قرآن کی تلاوت شروع کرنے کے وقت اول اعوذباللہ من الشيطن الرجيم اور پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے  
اس تمہید کے بعد آیت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی تفسیر دیکھئے 
بسم اللہ 
یہ کلمہ تین لفظوں کا مرکب ہے ،ایک حرف باء،دوسرے اسم،تیسرے اللہ۔حرف باء عربی میں بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوتی ہے ،جن میں سے تین معانی مناسب مقام ہیں، ان میں سے ہر ایک معانی اس جگہ لئے جا سکتے ہیں:۔
اول مصاحبت،یعنی کسی چیز کا کسی چیز سے متصل ہونا۔دوسرے: استعانت، یعنی کسی چیز سے مدد حاصل کرنا۔ تیسرے: تبرک،یعنی کسی چیز سے برکت حاصل کرنا 
لفظ اسم میں لغوی اور علمی تفصیلات بہت ہیں، جن کا جاننا عوام کے لئے ضروری نہیں، اتنا سمجھ لینا کافی ہے اردو میں اس کا ترجمہ نام سے کیا جاتا ہے۔
لفظ اللہ،  اللہ تعالٰی کے ناموں میں سب سے بڑا اور سب سے جامع نام ہے،اور بعض علماء نے اسی کو اسم اعظم کہا ہے، اور یہ نام اللہ کے سوا کسی اور کا نہیں ہو سکتا،اس لیے اس لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتے،کیونکہ اللہ واحد ہے،اس کا کوئی شریک نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نام ہے اس میں موجود حق کا جو تمام صفات کمال کا جامع اور صفات ربوبیت کے ساتھ متصف،یکتا اور بے مثال ہے۔
اس لئے کلمہ بسم اللہ کے معنی حرف باء کے مذکورہ تین معنی کی ترتیب سے یہ ہوئے:-
اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کے نام کی مدد سے، اللہ کے نام کی برکت سے
لیکن تینوں صورتوں میں یہ ظاہر ہے کہ یہ کلام نا مکمل ہے،جب تک اس کام کا ذکر نہ کیا جائے جو اللہ کے نام کے ساتھ یا اس کے نام کی برکت سے کرنا مقصود ہے،اس لئے نحوی قاعدے کے مطابق یہاں کوئی فعل مناسب مقام محذوف ہوتا ہے، مثلا "شروع کرتا ہوں یا پڑھتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ "
اور مناسب یہ ہے کہ یہ فعل بھی بعد میں محذوف مانا جائے، تا کہ حقیقی طور پر شروع اللہ کے نام سے ہی ہو،وہ فعل محذوف بھی اسم اللہ سے پہلے نہ آئے، صرف حرف باء کا اسم اللہ سے پہلے آنا عربی زبان کے لحاظ سے ضروری و ناگزیر ہے،اس میں بھی مصحف عثمانی میں باجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین یہ رعایت رکھی گئی ہےکہ حرف باء رسم الخط کے قاعدے سے الف کے ساتھ ملا کر لکھنا چاہیے تھا اور لفظ اسم الگ جس کی صورت ہوتی: باسم اللہ،  لیکن مصحف عثمانی کے رسم الخط میں حرف  ہمزہ کو حذف کر کے حرف باء کو سین کے ساتھ ملا کر صورة "اسم" کا جزء بنا دیا، تاکہ شروع اسم اللہ سے ہو جائے یہی وجہ ہے کہ دوسرے مواقع میں حرف الف حذف نہیں کیا جاتا،  اقرابسم ربك(العلق:١)میں ب کو الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے یہ صرف بسم اللہ کی خصوصیت ہےکہ باء کو سین کے ساتھ ملا دیا گیا ہے ۔
الرحمٰن الرحیم:- یہ دونوں اللہ تعالٰی کی صفات ہیں،  رحمان کے معنی عام الرحمة کے اور رحیم کے معنی تام الرحمة کے ہیں عام الرحمتہ سے مطلب وہ ذات جس کی رحمت سارے عالم اور ساری کائنات اور جو کچھ اب تک پیدا ہوا ہے اور جو کچھ ہو گا سب پر حاوی اور شامل ہو اور تام الرحمتہ کا مطلب ہے کہ اس کی رحمت کامل و مکمل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ لفظ رحمان اللہ جل شانہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے کسی شخص کو رحمان کہنا جائز نہیں کیوں کہ  اللہ تعالٰی کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہو سکتا جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہ رہے اسی لیے جس طرح لفظ اللہ کا جمع اور تثنیہ نہیں آتا رحمان کا بھی جمع اور تثنیہ نہیں آتا کیونکہ وہ ایک ہی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے اور تیسرے کا وہاں احتمال نہیں بخلاف لفظ رحیم کے کہ اس کے معنی میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا پایا جانا مخلوق میں نا ممکن ہو کیونکہ ہو سکتا ہو کوئی شخص کسی شخص سےپوری پوری رحمت کا معاملہ کرے ۔
اسی لئے لفظ رحیم انسان کے لئے بھی بولا جا سکتا ہے قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لئے بھی یہ لفظ استعمال فرمایا ہے : بالمؤمنين رءوف رحيم (التوبة )
ترجمہ مومنوں کے لئے انتہائی شفیق ،نہایت مہربان ہے!
مسئلہ:- اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آج کل عبدالرحمن " فضل الرحمن " وغیرہ ناموں میں تخفیف کر کے رحمان کہتے ہیں، اور اس شخص کو اس لفظ سے خطاب کرتے ہیں، یہ ناجائز اور گناہ ہے۔
حکمت (بسم اللہ) 
بسم اللہ میں اللہ تعالٰی کے اسمائے حسنا اور صفات کمال میں سے صرف دو صفتیں ذکر کی گئی ہیں، اور وہ دونوں لفظ رحمت سے مشتق ہیں، اور وسعت رحمت اور کمال رحمت پر دلالت کرنے والی ہیں، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تخلیق عالم اور آسمان، زمین اور تمام کائنات کے پیدا کرنے اور ان کو پالنے وغیرہ کا منشا اللہ تعالٰی کی صفات رحمت سے ہے،نہ اس کو ان چیزوں کی خود ضرورت تھی نہ کوئی دوسرا ان چیزوں کو پیدا کرنے پر مجبور کرنے والا تھا،صرف اسی کی رحمت کے تقاضے سے یہ ساری چیزیں اور ان کی پرورش کے سارے انتظامات وجود میں آئے ہیں۔
احکام و مسائل 
مسئلہ تعوذ:- تعوذ کے معنی ہیں اعوذباللہ من الشيطن الرجيم پڑھنا،قرآن کریم میں ارشاد ہے: فاذاقرات القران فاستعز بالله من الشيطان الرجيم(النحل) یعنی جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو اللہ سے پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے "
قرآت قرآن سے پہلے تعوذ پڑھنا با جماع امت سنت ہے، خواہ تلاوت قرآن کے اندر ہو یا خارج نماز(شرح منیة ص٣٠٣،٣٠٤) تعوذ پڑھنا تلاوت قرآن کے ساتھ مخصوص ہے، علاوہ تلاوت دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم اللہ پڑھی جائے، تعوذ مسنون نہیں ہے(عالمگیری ج٥ ص٣١٦)
جب قرآن شریف کی تلاوت کی جائے اس وقت اعوذباللہ اور باسم اللہ دونوں پڑھی جائیں، درمیان تلاوت جب ایک سورت ختم ہو کر دوسری شروع ہو تو سورت براءت کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں مکرر بسم اللہ پڑھی جائے، اعوذباللہ نہیں، اور سورت براءت اگر درمیان تلاوت آ جائے تو اس پر بسم اللہ نہ پڑھے ، اور اگر قرآن کی تلاوت سورت براءت سے ہی شروع کر رہا ہے تو اس کے شروع میں اعوذباللہ اور بسم اللہ پڑھنا چاہئے۔ عالمگیر ج ٥ ص٣١٦
احکام بسم اللہ:-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  قرآن مجید میں سورت نمل میں آیت کا جزو ہے ،اور ہر دو سورتوں کے درمیان مستقل آیت ہے،اس لئے اس کا احترام قرآن مجید ہی کی طرح واجب ہے، اس کو بے وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔اور جنابت یا حیض نفاس کی حالت میں اس کو بطور تلاوت پڑھنا بھی پاک ہونے سے پہلے جائز نہیںہاں کسی کام کے شروع میں، جیسے کھانے پینے سےپہلے بطور دعا پڑھنا ہر حال میں جائز ہے (شرح منیہ کبیر ص ٥٧)
مسئلہ:۔ پہلی رکعت میں اعوذباللہ کے بعد بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے، البتہ اس میں اختلاف ہےکہ آواز سے پڑھا جائے یا آہستہ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ اور بہت سے دوسرے آئمہ آہستہ پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں 
پہلی رکعت کے بعد دوسری دو رکعتوں کے شروع میں بھی بسم اللہ پڑھنی چاہیےاس کے مسنون ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور بعض روایات میں ہر رکعت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کو واجب کہا گیا ہے(شرح منیہ ص٣٠٦)
مسئلہ:۔ نماز میں سورت فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھنا چاہئے، خواہ جہری نماز ہو یا سری،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے ثابت نہیں ہے ، شرح منیہ میں اسی کو امام ابو حنیفہ اور  امام ابو یوسف  رحمت اللہ علیہ کا قول لکھا ہے( شرح منيه ص ٣٠٨،٣٠٩)اور شرح منیہ، درمختار، برہان وغیرہ میں اسی کو ترجیح ہے، مگر امام محمد رحمت اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ سری نمازوں میں پڑھنا بہتر ہے، بعض روایات میں یہ قول امام ابو حنیفہ  رحمت اللہ علیہ کی ظرف بھی منسوب کیا گیا ہے اور شامی نے بعض فقہاء سے اس کی ترجیح بھی نقل کی ہے،  "بہشتی زیور" (حصہ دوم صفحہ 20) میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ کوئی پڑھ لے تو مکروہ نہیں (شامی ج1 ص 490)
معارف القرآن ج١ ص٨٦،٨٧،٨٨،٨٩،٩٠

Thursday, May 4, 2017

اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ

اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ  وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ
ترجمہ: یقینا اﷲ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے

اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔

اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ مضارع سے نازل فرمایا اور مضارع میں دو زمانے ہوتے ہیں حال اور مستقبل۔ تو ترجمہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم اپنے بندوں کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں موجودہ حالت میں بھی اور اگر آیندہ بھی تم سے کوئی خطا ہو جائے گی تو ہم تمہاری توبہ قبول کر کے تمہیں معاف کر دیں گے اور صرف معاف ہی نہیں کریں گے محبوب بھی بنا لیں گے اور تمہیں اپنے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہونے دیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال اور مستقبل دونوں کے تحفظ کی ضمانت دے رہے ہیں کہ توبہ کی برکت سے حا لاً و استقبالاً ہم تم سے پیار کریں گے۔ ہم ایک دفعہ جس سے پیار کرتے ہیں ہمیشہ کے لیے پیار کرتے ہیں، ہم بے وفاؤں سے پیار ہی نہیں کرتے کیوں کہ ہمیں مستقبل کا بھی علم ہے کہ کون آیندہ ہم سے بے وفائی کرے گا اور کون با وفا رہے گا۔ ہم پیار اسی کو کرتے ہیں جو ہمیشہ باوفا رہتا ہے یا اگر کبھی بوجۂ بشریت کے اس کی وفاداری میں کوئی کمزوری بھی آئے گی اور اس سے کوئی خطا بھی ہو جائے گی تووہ پھر توبہ کر کے با وفا ہوجائے گا۔ توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہوتا۔ اور یہ بات دنیا کی ہر محبت کے مشاہدات میں بھی موجود ہے جیسے بچہ ماں کی چھاتی پر پاخانہ پھِر دیتا ہے تو کیا ماں اس کو دھو کر پھر پیار نہیں کرتی؟ اور کیا پھر وہ دوبارہ پاخانہ نہیں پھرتا؟ ماں کو یقین ہوتا ہے کہ یہ پھر پھِرے گا مگر وہ اپنی شفقت سے نہیں پھِرتی حالاں کہ یقین سے جانتی ہے کہ یہ ہگتا رہے گا مگر محبت کی وجہ سے عزم رکھتی ہے کہ میں دھوتی رہوں گی۔ تو کیا اللہ تعالیٰ کی محبت ماں کی محبت سےبھی کم ہے۔ ماؤں کو محبت کرنا تو انہوں نے ہی سکھایا ہے لہٰذا ہمیں حکم دے دیا اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ تم اپنے رب سے بخشش مانگتے رہو۔ کیوں؟ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا کیوں کہ تمہارا رب بہت بخشنے والا ہے، غَافِرْ نہیں ہے غَفَّارْ ہے کَثِیْرُ الْمَغْفِرَۃِ ہے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی ورنہ معافی کا حکم کیوں دیتے۔ اگر ہم معصوم ہوتے تو اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ نازل نہ ہوتا۔ چوں کہ صدورِ خطا کا معاملہ یقینی تھا اس لیے استغفار کا حکم نازل ہوا۔ لہٰذا ماضی کے گناہوں سے معافی مانگو اور آیندہ کے لیے توبہ اور عزمِ مصمّم کرو کہ آیندہ کبھی یہ گناہ نہ کروں گا۔ لاکھ بار خطائیں ہو جائیں لیکن جو توبہ کرتا رہتا ہے یہ علامت ہے کہ یہ بندہ حال میں بھی محبوب ہے اور مستقبل میں بھی اللہ کا محبوب رہے گا۔ جو مستقبل میں بے وفائی کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ محبوب ہی نہیں بناتے لہٰذا حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو مرتد ہوئے وہ پہلے ہی سے خدا کے مبغوض تھے اگرچہ حالت اسلام ظاہر کر رہے تھے لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ وہ مرتد ہو جائیں گے لہٰذا وہ اللہ کے دائرۂ محبوبیت میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے اس لیے خطاؤں سے مایوس نہ ہو۔ کوشش تو کرو، جان کی بازی لگا دو کہ کوئی خطا نہ ہو لیکن بر بنائے بشریت اگر کبھی پھسل جاؤ تو فوراً توبہ کر کے ان کے دامنِ رحمت اور دامنِ محبوبیت میں آجاؤ اور اگر شیطان ڈرائے کہ آیندہ پھر یہی خطا کرو گے تو کہہ دو کہ میں پھر توبہ کر لوں گا۔ ان کی چوکھٹ موجود ہے اور میرا سر موجود ہے، میری جھولی باقی ہے اور ان کا دست کرم باقی ہے۔ یہ میرا سر سلامت رہے جو ان کی چوکھٹ پر پڑا رہے اور میرا دست سوال سلامت رہے جس سے میری جھولی بھرتی رہے۔ کیا یہ الفاظ اور یہ زبان زمین کی زبان ہے، یہ آسمان سے عطا ہوتی ہے۔ میرا ایک شعر ہے  ؎

میرے پینے کو دوستو سن لو

آسمانوں سے مے  اُترتی ہے

خطا ہونا تو تعجب کی بات نہیں کیوں کہ انسان مجموعۂ خطا و نسیان ہے لیکن خطا کے بعد توبہ نہ کرنا اور خطا پر قائم رہنا یہ بات تعجب اور خسارہ کی ہے لہٰذا فوراً توبہ کرو اور اگر شیطان ڈرائے کہ تم پھر یہی خطا کرو گے تو اس سے کہہ دو کہ میں توبہ کر رہا ہوں اور میرا توبہ توڑنے کا ارادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر آیندہ توبہ ٹوٹ جائے گی تو پھر توبہ کروں گا۔ پھر رو رو کے ان کو منا لوں گا۔ خوب سمجھ لیجیے کہ توبہ کی قبولیت کے لیے اتنا کافی ہے کہ توبہ کرتے وقت توبہ توڑنے کا ارادہ نہ ہو، عزمِ مصمم ہو کہ آیندہ ہر گزہرگز یہ گناہ نہ کروں گا۔ بوقت توبہ ارادۂ شکست توبہ نہ ہو تو اس کی توبہ قبول ہے۔ جس کو یہ علم ہو گا شیطان اس کو مایوس نہیں کر سکتا۔

آیتِ شریفہ کی تفسیر بعنوانِ دگر

اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ  وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ

اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا ایک راستہ

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے، ان سے محبت کرتا ہے اور آیندہ بھی محبت کرتا رہے گا۔ جب تک تم توبہ کے کیمیکل اور توبہ کے فعل کا اہتمام رکھو گے جب تک تم دائرۂ توبہ میں رہو گے، تب تک میرے دائرۂ محبوبیت میں رہو گے لیکن جو توبہ چھوڑ دے گا تو محبوبیت کے دائرہ سے اس کا خروج ہو جائے گا اس لیے ماضی میں جو غلطیاں کر چکے ان سے توبہ کر لو تو میرے محبوب ہوجاؤ گے لیکن آیندہ کے لیے اگر شیطان وسوسہ ڈالے کہ تم پھر یہ خطا کرو گے کیوں کہ تمہاری تو بہت پرانی عادت پڑی ہوئی ہے تو آیندہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں امید دلا دی کہ ہم ایسا صیغہ نازل کر رہے ہیں یعنی مضارع جس میں حال بھی ہے اور مستقبل بھی لہٰذا تم گھبرانا مت کہ اگر آیندہ بھی تم سے خطا ہو گی اور تم معافی مانگو گے تو ہم تمہاری توبہ کو قبول کریں گے اور دائرۂ محبوبیت سے تمہارا خروج نہیں ہونے دیں گے۔ ہم تمہاری خطاؤں کی معافی کے ذمہ دار اور کفیل ہیں کیوں کہ توبہ کرنے والوں سے ہم محبت کرتے ہیں۔ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ فرمایا یَرْحَمُ التَّوَّا بِیْنَ نہیں فرمایا، یَغْفِرُ التَّوَّابِیْنَ نہیں فرمایا، یَرْزُقُ التَّوَّابِیْنَ نہیں فرمایا، اللہ تعالیٰ کے جتنے صفاتی نام ہیں سب کو نظر انداز فرما کر صرف صفتِ محبت کا ارشاد ہوا کہ ہم تم سے محبت کرتے ہیں اور آیندہ بھی محبت کرتے رہیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ محبت میں سب کچھ ہے، کسی نعمت کا اس سے خروج نہیں ہے،  ہر نعمت اس میں شامل ہے، اس میں رحمت بھی شامل ہے، مغفرت بھی شامل ہے، رزّاقیت بھی شامل ہے۔ جو آدمی پیارا ہو جاتا ہے تو  ہر ایک اپنے پیارے کو سب کچھ دیتا ہے، پیارے کو پیاری چیز دیتا ہے اور ہر غیر پیاری چیز سے بچاتا ہے۔ یُحِبُّفرمایا کہ محبت میں سب نعمتیں شامل ہیں کہ توبہ کی برکت سے ہم تم کو تمام نعمتوں سے نوازیں گے اور جو چیزیں نقصان دہ ہیں یا زوالِ نعمت کے اسباب ہیں ان سے تمہاری حفاظت کریں گے۔ پیاروں کو پیاری چیز دیں گے اور غیر پیاری سے بچالیں گے۔ لیکن توبہ کب قبول ہے؟ قبول توبہ کی چار شرائط ہیں:

۱) اَنْ یُّقْلِعَ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ توبہ کی قبولیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اس گناہ سے ہٹ جاؤ۔ یہ نہیں کہ توبہ توبہ کر رہے ہیں اور دیکھے بھی جا رہے ہیں کہ صاحب کیا کروں مجبور ہو جاتا ہوں، موہنی شکل دل موہ لیتی ہے، خوب سمجھ لیں کہ ارتکابِ گناہ کے ساتھ توبہ قبول نہیں۔ پہلے گناہ سے الگ ہو جاؤ پھر توبہ کرو خواہ نفس کتنا ہی الگ نہ ہونا چاہے۔ جس طرح بکری بھوسی دیکھ کر اس پر گرتی ہے جب تک کان پکڑ کر الگ نہ کرو، اسی طرح خود اپنا کان پکڑ کر الگ ہوجاؤ۔ نفس پر سوار رہو، نفس کی سواری مت بنو۔

۲) اَنْ یَّنْدَمَ عَلٰی فِعْلِھَا اس گناہ پر دل میں ندامت پیدا ہو جائے اور ندامت کے کیا معنیٰ ہیں۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں:

اَلنَّدَامَۃُ ھِیَ تَاَ لُّمُ الْقَلْبِ

قلب میں الم اور دُکھ پیدا ہو جائے کہ آہ میں نے کیوں ایسی نالائقی کی اور جس کو اپنی نا لائقی اور کمینہ پن کا احساس نہ ہو وہ ڈبل کمینہ ہے۔ ندامت نام ہے کہ دل دُکھ جائے، دل میں غم آ جائے اور توبہ کر کے رونے بھی لگو تاکہ نفس میں جو حرام مزہ آیا ہے وہ نکل جائے جیسے چور چوری کا مال تھانے میں جمع کردے اور آیندہ کے لیے ضمانت دے کہ اب کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا تو سرکار اس کومعاف کر دیتی ہے۔ اشکبار آنکھوں سے استغفار کرنا گویا سرکار میں اپنا حرام مال جمع کرنا ہے، جو حرام لذت آئی تھی اس کو گویا واپس کر دیا کہ اے اللہ! معاف فرما دیجیے۔

۳) اور تیسری شرط ہے اَنْ یَّعْزِمَ عَزْمًا جَازِمًا اَنْ لَّایَعُوْدَ اِلٰی مِثْلِھَا اَبَدًا پکا ارادہ کرے کہ اب دوبارہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا۔

۴) فَاِنْ کَانَتِ الْمَعْصِیَۃُ تَتَعَلَّقُ بِاٰدَمِیٍّ فَلَھَا شَرْطٌ رَّابِعٌ وَّھُوَ رَدُّ الظُّلَامَۃِ اِلٰی صَاحِبِھَا اَوْ تَحْصِیْلُ الْبَرَآءَ ۃِ مِنْہُ

اگر اس معصیت کا تعلق کسی آدمی سے ہے تو توبہ کی چوتھی شرط یہ ہے کہ  اہل حق کو اس کا حق واپس کرے یا اس سے معاف کرائے۔ یہ نہیں کہ مسجد کے وضو خانے سے گھڑی اُٹھا لی اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ میاں معاف کر دو، آیندہ کبھی چوری نہیں کروں گا لیکن یہ سوئزرلینڈ کی گھڑی ہے، سٹیزن ہے، یہ مجھے بہت اچھی معلوم ہوتی ہے، اس کو واپس نہیں کروں گا، اس بار معاف کر دو۔ تو ہرگز معافی نہیں ہو گی، مال واپس کرو۔

توبہ کی یہ چار شرطیں ہیں ،تین شرطیں اللہ کے حقوق ہیں اور چوتھی شرط بندوں کا حق ہے۔ ان شرطوں کے ساتھ توبہ کرنے سے آپ اللہ کے محبوب ہوجائیں گے۔

آیتِ شریفہ میں دوبارہ یُحِبُّ نازل ہونے کا راز

تو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ کہ اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں تَوَّابِیْنَ کو اور محبوب رکھتے ہیں مُتَطَھِّرِیْنَ کو یعنی توبہ کرنے والوں کو بھی اللہ محبوب رکھتا ہے اور طہارت میں مبالغہ کرنے والوں، نجاستوں سے خوب احتیاط کرنے والوں کو بھی محبوب رکھتا ہے۔ عربی گرامر کے لحاظ سے یہاں عطف جائز تھا کہ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ دو بار یُحِبُّ نازل کرنا ضروری نہیں تھا مگر اس میں زبردست معنویت اور اللہ تعالیٰ کا زبردست پیار ہے کہ دوبارہ  یُحِبُّ کو داخل کیا۔ یہ حق تعالیٰ کے کلام کا کمالِ بلاغت ہے کہ محبت کی فراوانی اور دریائے محبت میں طغیانی کے لیے ایک یُحِبُّ کی نسبت تَوَّابِیْنَ کی طرف فرمائی کہ اللہ تَوَّابِیْنَ کو محبوب رکھتا ہے اور دوسرے یُحِبُّکی نسبت مُتَطَھِّرِیْنَ کی طرف فرمائی کہ اللہ مُتَطَھِّرِیْنَ کو بھی محبوب رکھتا ہے۔ اپنے بندوں کو توابیت اور متطہریت ان دو اداؤں پر ان کو اپنا محبوب بنانے کا عمل نازل کرتا ہوں۔ یہ وجہ ہے دوبار یُحِبُّ نازل کرنے کی۔ سبحان اللہ! واہ رے محبوب تعالیٰ شانہ کیا شان ہے آپ کی!

ایک مسئلۂ سلوک کا استنباط

مُتَطَھِّرِیْنَ بابِ تفعل سے نازل فرمایا ۔ اس کے اندر ایک مسئلہ تصوف بھی ہے جو حق تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کسی تفسیر میں ہے یا نہیں لیکن سارے علماء اورمفسرین  ان شاء اللہ اس کو تسلیم کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الطَّاھِرِیْنَ نہیں فرمایا کہ ہم محبوب رکھتے ہیں پاک رہنے والوں کو بلکہ مُتَطَھِّرِیْنَ فرمایا جو بابِ تفعل سے ہے جس میں خاصیت تکلف کی ہوتی ہے اور تکلف کے معنیٰ ہیں کہ تکلیف اٹھاکر کسی کام کو کرنا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ گناہوں کی نجاستوں سے پاک رہنے میں تم کو تکلیف اُٹھانی پڑے، کلفت پیش آئے تو اس سے دریغ نہ کرنا۔ جی نہیں چاہتا گناہ سے بچنے کو، جی نہیں چاہتا حسینوں سے نظر ہٹانے کو مگر تم میری راہ میں تکلیف اٹھا لو۔ اگر لیلاؤں کو دیکھو گے تو پریشانی آئے گی اور یہ تکلیف راہِ لیلیٰ کی ہوگی لیکن مجھے خوش کرنے کے لیے تکلیف اُٹھاؤ گے تو یہ تکلیف راہِ مولیٰ میں داخل ہو گی۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ کس کی راہ میں تکلیف اٹھانے میں فائدہ ہے۔ تمہارے مزاج میں اگرچہ گناہ پسندی اور حسینوں کی طرف نظر بازی اور ذوقِ حسن بینی ہے لیکن ان سے بچنے میں تمہاری روح کو تو سکون ملتا ہے مگر تمہارا نفس’’ تل‘‘ کے لیے تلملاتا ہے اور’’ بل‘‘ کے لیے بلبلاتا ہے لہٰذا اس کو تلملانے دو اور بلبلانے دو، تکلیف اُٹھاؤ۔ گناہ چھوڑنے میں جو تکلیف ہو گی تمہارے نفس کو ہو گی، روح کو خوشی ہو گی اور تم روح سے زندہ ہو، نفس سے زندہ نہیں ہو۔ تمہاری گناہ کی جفا کاریاں اور بیوفائیاں سب روح کی بدولت ہیں۔ اگر میں تمہاری روح قبض کرلوں تو تم کوئی گناہ نہیں کر سکتے۔ تمہارا سببِ حیات روح ہے تو تم سببِ حیات کی کیوں فکر نہیں کرتے۔ جب تم اللہ کی نا فرمانی سے بچو گے تو کتنی حیات تم پر برس جائے گی۔

محبوبِ الٰہی بنانے والی دعا

تو مُتَطَھِّرِیْنَ بابِ تفعل سے نازل ہونے کا یہ علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا لیکن اس میں ایک علمِ عظیم اور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ تَوَّابِیْنَ اور مُتَطَھِّرِیْنَ کو محبوب رکھتے ہیں تو آپ کی رحمت متقاضی ہوئی کہ وضو کے آخر میں یہ دعا اپنی اُمت کو سکھا دی:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ

دیکھیے جو اسلوب نزولِ قرآنِ پاک کا ہے اسی اسلوب پر یہ دعا سکھائی گئی اور قرآنِ پاک میں جو دو لفظ تَوَّابِیْنَ اور مُتَطَھِّرِیْنَ نازل ہوئے وہ اس دعا میں آگئے۔ اس وقت قرآنِ پاک کی آیت اور ایک حدیث کا ربط پیش کر رہا ہوں اور یہ بھی اللہ کا انعام ہے ورنہ قرآنِ پاک کی آیت کہیں ہے اور حدیث پاک کہیں ہے۔ اگر اللہ کا کرم نہ ہو تو ذہن اس طرف نہیں جاسکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسانِ عظیم ہے، شفقت اور رحمت کا اُمت پر نزول ہے کہ وضو کے آخر میں یہ دعا سکھا دی کہ تم اب اپنے رب کے پاس کھڑے ہونے والے ہو اے میری اُمت کے لوگو! نماز میں جب تم اپنے مولیٰ کے سامنے کھڑے ہو تو یہ دعا پڑھ کر حاضری دو تاکہ حالتِ محبوبیت میں تمہاری پیشی ہو اور میری اُمت کا کوئی فرد اس دعا کی بدولت اس دعا کی برکت سے محروم نہ رہے، نہ توابیت سے محروم رہے، نہ متطہریت سے محروم رہے۔ دونوں نعمتوں سے مالا مال ہو جائے۔

آیتِ شریفہ کی تفسیر بعنوانِ دگر

آیت وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ باب تَفَعُّلْ سے نا زل ہونے کا راز

ﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ار شاد فرما تے ہیں اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ اس میں ایک علمی سوال ہو تا ہے کہ یُحِبُّ کو دو دفعہ کیوں نازل کیا جب کہ عر بی قاعدہ سے عطف ممکن تھا یعنی یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَالْمُتَطَہِّرِیْنَ نازل کر سکتے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے فَضْلًا وَّ رَحْمَۃً یُحِبُّ دوبار نازل کیا کہ اس میں ڈبل انعام ہے یعنی جس طرح سے میں تو بہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہوں اسی طرح  مُتَطَہِّرِیْنَ یعنی جو بہ تکلف گناہ سے بچتے ہیں، گناہ سے بچنے میں تکالیف اُٹھاتے ہیں، گناہ چھوڑنے کا دل پر غم برداشت کرتے ہیں، اپنی حرام خواہش کا خون کرنے کی مشقت جھیلتے ہیں ان کو بھی میں اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اس لیے یُحِبُّ مستقل نازل کیا ،عطف نہیں کیا تاکہ بندوں کو میرا محبوب بننے کی لالچ میں تکلیف اُٹھانا او ر میری محبت کے نام پر جان کی بازی لگا نا آ سان ہو جائے  ؎

جان دے دی میں نے ان کے نام پر

عشق  نے   سوچا   نہ   کچھ   انجام   پر

یہ میرا ہی شعر ہے۔ اﷲ کا محبوب بننا معمولی بات ہے؟ نعمت عظمیٰ ہے۔ اسی لیے مُتَطَہِّرِینْ  بابِ تَفَعُّلْ سے نازل کیا۔ اگرچہ یہ جملہ خبریہ ہے کہ جو گناہوں کو چھو ڑنے میں تکلیف اُٹھاتے ہیں ﷲ تعالیٰ ان کو محبوب بنا لیتا ہے لیکن اس میں جملہ انشائیہ ہے کہ اگر تم اﷲ کا محبوب بننا چاہتے ہو تو گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرو۔ اس جملہ خبریہ میں یہ انشائیہ ہے ورنہ بابِ تَفَعُّلْ کے بجائے کوئی دوسرا صیغہ بھی نازل کر سکتے تھے۔ یُحِبُّ الطَّاھِرِیْنَ فرما دیتے کہ میں پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہوں لیکن نہیں تَطَہُّر بابِ تَفَعُّلْ سے نازل کیا اور بابِ تفعل میں تکلف کی خاصیت ہے۔ ﷲ اکبر! کیا عظیم الشان کلام ہے جو ﷲ کا کلام ہونے کی دلیل ہے کیوں کہ  وہ اپنے بندوں کی طبیعت کو جانتے ہیں اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ بھلا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا۔ وہ جا نتے تھے کہ گناہوں سے بچنے میں بندوں کو تکلیف ہوگی اس لیے تُطَھُّر بابِ تَفَعُّلْ سے نازل کیا کہ پرانے پاپ چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا لیکن مُتَطَہِّرِیْن وہ بندے ہیں جو ﷲ کو راضی کرنے کے لیے گناہ کو چھوڑ کر دل کا خون کر لیتے ہیں اگرچہ گناہوں کی ان کو چاٹ پڑی ہو ئی ہے، بدمعاشیوں کی عادت پڑی ہوئی ہے لیکن پرانی سے پرانی عادت کو چھو ڑنے کے لیے مشقتیں اٹھا تے ہیں تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ جس کو گناہوں کی عادت پڑجاتی ہے اس سے پو چھو کہ گناہ چھوڑنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے، دل کے ٹکڑ ے ہو جاتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ دل کیا چیز ہے،بندہ ہے کیوں کہ بندے کا ہر جز بندہ ہے جب ہم ﷲ کے غلام ہیں تو ہمارا ہر جز ﷲ کا غلام ہے پھر دل ﷲ کی غلامی سے کیسے نکل سکتا ہے لہٰذا دل کو بہ تکلف زبردستی ﷲ کی فرماں بر داری پر مجبور کرتے ہیں۔ لہٰذا بابِ تفعل نازل کر کے ﷲ تعالیٰ بہ تکلف گناہوں سے بچنے کی تکلیف اُٹھانے والوں کی تعریف فرما رہے ہیں ۔

(احقر مر تب عرض کر تا ہے کہ حضرت والا کے خلیفہ مولانا یو نس پٹیل صاحب جو افریقہ سے آئے تھے اس تقریرکے وقت موجو د تھے، انہوں نے عرض کیا کہ متطہرین باب تفعل سے نازل ہونے کا یہ راز نہ انہوں نے کسی عالم سے سنا نہ کسی کتاب میں پڑھا ۔)

دوسرا نکتہ اس میں یہ ہے کہ وضو کے بعد کی جو مسنون دعا ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَ کہ اے ﷲ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں بنا دیجیے اور گناہوں کی نجاست سے پاک رہنے کی تکلیف اُٹھانے والوں اور گناہوں سے بچنے اور گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرنے والوں میں مجھے بنا دیجیے ۔ یہی طہارتِ حقیقیہ ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرما تے ہیں کہ طہارت کی حقیقت ہے طَہَارَۃُ الْاَسْرَارِ مِنْ دَنَسِ الْاَغْیَارِ یعنی غیر ﷲ کے میل کچیل سے دل کا پا ک ہوجانا۔ جب کسی حسین یا حسینہ، نمکین یا نمکینہ، دمکین یا دمکینہ، رنگین یا رنگینہ، معشوق یا معشوقہ کی محبت سے دل پاک ہوجائے تو سمجھ لو طہار تِ با طنی حاصل ہو گئی ۔ ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ وضو کے بعد جو یہ دعا تعلیم فرمائی گئی اس میں یہ حکمت ہے کہ بندہ ﷲ تعالیٰ سے درخواست کر رہا ہے کہ اے ﷲ!وضو کر کے میں نے جسم تو دھو لیا، ظاہری طہار ت تو حاصل کرلی یہی میرے اختیار میں تھا لیکن دل تک میرا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا آپ اپنی قدرتِ قاہرہ سے میرے دل کو پاک کر دیجیے یعنی گناہوں کے ذوق، گناہوں کے شوق، گناہوں کے طوق یعنی طوقِ لعنت سے مجھے پاک کردیجیے۔

اور ایک نکتہ یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی ﷲ علیہ وسلم کی رحمت نے جب دیکھا کہ ﷲ تعالیٰ تَوَّابِیْنَ کو اور مُتَطَہِّرِیْنَ کو محبوب رکھتے ہیں تو اُمّت کو یہ دعا سکھا دی کہ اے ﷲ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں اور بہ تکلف گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف اُٹھانے والوں میں اور غیر ﷲ کی محبت سے دل کو پاک کرنے کی مشقت جھیلنے والوں میں بنا دیجیے تا کہ اس دعا کی برکت سے اُمّت کو مذکورہ طہارتِ باطنی کی تو فیق ہو جائے اور اُمت محبوب ہو جائے۔

                                                                                                                                          (ماخوذ از: خزائن القرآن)

شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

Majlis e zikar

" />If you cannot see the audio controls, If you cannot see the audio controls, listen/download the audio file here">listen/download the audio file here